Wednesday, 18 November 2015

طلبِ جہیزایک سنگین گناہ و جرم، بدترین لعنت اور معاشرتی ناسور

"طلبِ جہیز و فراہمیء جہیز اور بارات سنگین گناہ و جرائم، بدترین رسوم و لعنتیں اور معاشرتی ناسور ہیں"

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں، بانی صدر، تحریک نفاذ آئین، قرآن و سنت پاکستان

جہیز کی طمع و طلب اور خواہش و تقاضہ نیز قبولیت بنیادی طور پر خلافِ اسلام، غیر شرعی، غیر اسلامی، غیر انسانی و غیر اخلاقی، بدترین معاشرتی رسوم ہیں جو کہ مسلمانوں میں ہندو معاشرے کے ساتھ طویل رہن سہن اور احساس کمتری، قرآن و سنت سے انحراف و روگردانی اور سرکشی و نافرمانی کے عمومی روش و رویے اور رجحان کی وجہ سے در آئی آئی ہیں حالانکہ خود ان کے ہاں بھی ان رسوم کو معیوب و قابل نفرت و حقارت گردانا جاتا ہے اور ان کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے مگر افسوس صد افسوس کہ بد قسمتی سے ہمارے یہاں (پاکستان کے مسلم معاشرے میں) بد ترین لعنت اور معاشرتی ناسور بن کر یہ رسوم ہمارے رگ و پے میں بری طرح سرایت کر چُکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں کہ سسرالیوں نے اپنی بہو کو، شوہر نے اپنی دلہن کو جہیز کم لانے کے الزام میں اس پر مٹی کا تیل، پیٹرول، تیزاب چھڑک کر آگ لگا دی، نئی نویلی دلہن کو جلا کر جان سے مار ڈالا گیا،  مار پیٹ کر ذلیل کیا اور گھر سے نکال دیا، پنکھے سے لٹکا کر  پھانسی دے ڈالی، تیز دھار آلے/ چھریوں کے وار کر کے بےدردی و بےرحمانہ طریقے سے قتل کر دیا، چولھا، سٹوو پھٹنے سے ہلاک ہونے، خود کشی کرنے کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی وغیرہ! معصوم مقتولہ کے ساتھ یہ ظالمانہ و بہیمانہ، بربریت و سفاکیت پر مبنی بدسلوکی اور ظالمانہ و بےرحمانہ رویہ محض کم جہیز لے کر آنے کی پاداش میں اختیار کیا جاتا ہے، حالانکہ دین اسلام میں لڑکی کے والدین اور بھائیوں پر بارات کےلیے رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے وغیرہ کی ذمہ داری ہر گز نہیں ہے قرآن و سنت میں بارات و جہیز کا قطعاً کوئی تصور، گنجائش، جواز موجود و ثابت نہیں، آثار صحابہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، آئمہ محدثین و آئمہ فقہاء (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل) رحمہم اللہ تعالٰی اور ان کے شاگردوں اور علماء ربانیین صالحین و مفتیان اسلام رحمہم اللہ کے اقوال، تصانیف و تالیفات ہ کے اقوال و ارشادات اور مواعظ سے بھی کہیں بارات و جہیز کے جواز کا کوئی ثبوت میسر نہیں آتا جہیز بہر صورت حرام و ناجائز، لعنت و ناسور اور گناہ کبیرا ہے، اس حقیقت سے بھی کوئی اہل علم انکار کی جرأت نہیں کر سکتا کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمہ رضی الله تعالٰی عنہا سمیت کسی بھی بیٹی کو کوئی بھی اور معمولی سی چیز بھی جہیز میں نہیں دی۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا ابوطالب نے دادا حضرت عبدالمطلب کے بعد حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی پرورش و کفالت کی تھی اور پھر چچا ابوطالب کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پرورش و کفالت کی ذمہ داری، رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے سنبھالی تھی اور سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم، نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کے ہی پاس ان ہی کے گھر میں رہتے تھے تو اس لیے جب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی پیاری لخت جگر سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کا نکاح فرمایا تو انکے والد گرامی ابوطالب کی وراثت کے طور پر ایسی چند اشیاء ضروریہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو عطا فرمائیں جو ان کے والد کی طرف سے ترکے میں حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کے حصے میں آئی تھی  اور جن  کے بغیر علیحدہ مکان یا حجرے میں کسی جوڑے کا رہنا ممکن نہیں تھا اور وہ چیزیں حضرت علی رضی الله تعالٰی عنہ کے والد گرامی ابوطالب کی وراثت میں ان کا حصہ تھیں جو رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے بوقت ضرورت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے حوالے کر دی تھیں، نبی علیہ الصلوة والسلام نے حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا سمیت کسی بھی بیٹی کو ہرگز اور قطعاً کوئی جہیز نہیں دیا، سنت رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم، قرآن مجید اور ذخیرہء کتب حدیث سے جہیز کا کوئی جواز ثابت نہیں ہے اور نہ ہی آئمہ اربعہ، آئمہ فقہاء و مجتہدین یا علماء و صالحین کی تصانیف و تالیفات اور فتاویٰ سے جہیز کے جواز و ثبوت اور سنت نبوی ثابت ہوتا ہے، یہ محض ایک ایسی بے بنیاد، من گھڑت اور فضول و لغو بات اور صریح غلط فہمی ہے جس کو بلا تحقیق و تصدیق، جاہل مولویوں، علماء سوء اور نام نہاد و جعلی پیروں نے شر و فساد اور بدترین بدعت کے طور پر مسلم معاشرے میں پھیلایا ہوا ہے اور اس پر مصلحتاً خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور نناوے فیصد عام و خاص لوگ "جہیز دینے کے حرام و ناجائز اور گناہ کبیرہ عمل کو سنت سمجھنے لگ گئے ہیں بعض علماء سوء، قرآن و سنت کے احکامات سے لاعلم مولوی حضرات بتاتے ہیں کہ "جہیز سنت تو ضرور ہے مگر شرط یہ ہے کہ اسی کے بقدر ہو جو رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی الله تعالٰی عنہا کو دیا تھا" جبکہ یہ بات سرے سے ہی بے بنیاد، جھوٹی، لغو، فضول، من گھڑت ہے، جہیز طلب کرنا، جہیز طلب کیے بغیر یا تقاضے پر دینا، سو فیصدی اور بالکل ہی حرام و ناجائز، گناہ کبیرا ہے، یہ صرف ایک ہندووانہ رسم ہے، ایک بدترین لعنت و ناسور ہے۔ نکاح پر لڑکے پر واجب ہے کہ وہ حسب استطاعت مناسب حق مہر کے بعوض لڑکی سے نکاح کرے جبکہ لڑکی مقررہ حق مہر واجب کے بعوض لڑکے سے نکاح کو قبول کرے تو یہ درست و جائز اور شرعی عمل ہے، کوئی بھی والدین، رشتے دار، بھائی بہن لڑکی کو حسب استطاعت تحائف میں سوئی سے لے کر ہوائی جہاز تک ہر چیز یا نقد رقومات وقتاً فوقتاً بطور عطیہ و تحفہ دیں تو بالکل جائز و درست اور باعث اجر و ثواب ہے بس شرط یہ ہے کہ بغیر نمود و نمائش اور اعزہ و اقربا سمیت اڑوس پڑوس اور تعلق والوں یعنی تمام افراد معاشرہ و خاندان، قبیلے و برادری اور اہلیان علاقہ کو بتائے، دکھائے، نمود و نمائش کیے بغیر، خاموشی کے ساتھ کسی بھی موقع پر، کسی بھی وقت شادی کے کچھ عرصہ بعد اس طرح دیا جائے کہ دینے اور لینے والے کے سوا کسی بھی غیر کو اس کا علم نہ ہونے پائے۔ ہمیں چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے جہاں جہیز طلب کرنے، جہیز کا تقاضہ و مطالبہ کرنے، جہیز لینے اور قبول کرنے کو جہاں جائز اور فیشن بنا رکھا ہے وہیں لڑکیوں کو وراثت میں ان کا شرعی حصے سے محروم رکھنے اور لڑکیوں کو ان کے نکاح پر سود پر قرض لے کر، زمین، جائیداد، گھر بار رہن رکھ کر بھاری سود پر قرض لے کر بھی اپنی ناک اونچی رکھنے کےلیے نود و نمائش کے ساتھ اعلانیہ و فخریہ طور پر جہیز دینے کو ناگزیر ضرورت، جائز بلکہ سنت سمجھا جاتا ہے، اور پھر لڑکیوں کو والدین کی وراثت میں شرعی حصے سے محروم رکھنے میں بھی کوئی عار و عیب نہیں سمجھا جاتا۔ اس مطلق حرام و ناجائز رسم کے مکمل خاتمے کےلیے جہد مسلسل کا آغاز کریں،۔ کیونکہ جہیز کا دینا، لینا، طلب و خواہش یا تقاضہ و طمع رکھنا، ہر صورت میں حرام و ناجائز، لعنت و ناسور اور گناہ کبیرا ہے،
اسلامی و شرعی نکاح میں صرف چھ چیزوں کی ضرورت ہے، پہلی چیز کم از کم دو قابل قبول و معتبر اشخاص گواہان کی موجودگی ، دوسری چیز ان گواہان کے سامنے لڑکے اور لڑکی کا ایک دوسرے کو ایجاب و قبول، یہ دونوں چیزیں فرض ہیں، تیسری چیز حق مہر ہے جو کہ کم از کم دس درہم کے مساوی اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں، یہ واجب ہے، چوتھی چیز نکاح کے بعد خطبہ ء نکاح، پانچویں چیز نکاح موقع پر موجود افراد کا گڑ، شکر، بتاشوں، چھوہاروں، کھجوروں، مٹھائی یا کسی بھی شیرینی وغیرہ سے منہ میٹھا کروانا اور چھٹی چیز ہمبستری کے ایک دو یا زائد روز بعد حسب استطاعت چند یا بعض اعزہ و اقرباء، دوست احباب اور پڑوسیوں کو  سادہ و مناسب دعوت ولیمہ کی ضیافت کا اہتمام کرنا ان چھ چیزوں مجموعے کو نکاح، شادی، بیاہ، میرج، ویڈنگ کہتے ہیں، اس کے علاوہ باقی ساری چیزیں شرعاً غلط، ناجائز، حرام اور ممنوع ہیں، خرافات و فضولیات اور لغو و بیہودہ رسومات ہیں جن سے گریز و اجتناب اور پرہیز ضروری ہے۔
انہی کی وجہ سے شادی کی برکات اور سعادتیں، ختم ہو جاتی ہیں، نو بیاہتا جوڑے اور دونوں خاندانوں میں خلوص و محبت اور چاہت کا قلع قمع ہو جاتا ہے، رنجشیں اور شکوے شکایتیں جنم لینے لگتے ہیں اور اکثر و بیشتر، مایوں، مہندی اور نکاح پر ناچ گانے، جہیز کی نمود و نمائش، مخلوط محافل موسیقی، شہنائیوں، ڈھول باجوں، بموں، پٹاخوں، پھلجھڑیوں، فائرنگ جیسی خرافات کے ساتھ بارات،  سمیت قرآن و سنت کے دیگر بھی کئی احکامات سے کھلا انحراف و روگردانی، بغاوت و سرکشی اور نافرمانی کرنے کے بعد نکاح کی اس تاثیر، خیر و برکت اور سعادت کی امید کیوں کر کی جا سکتی ہے جس کی تقریبات میں احکام شریعت اسلامیہ کا ذرا بھی خیال نہ رکھا گیا ہو۔
 پھر بہو جلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے! --- پہلے اپنے آنگن میں بیٹیاں جلا دینا!
اسلام  (قرآن و سُنَّۃ) کے احکامات و پیغامات اور تعلیمات و ہدایات میں   کہیں بھی جہیز کو پسندیدہ سمجھا گیا ہے اور نہ ہی اس کو جائز  سمجھا گیا ہے بلکہ   طلب و تقاضہءِ جہیز کی رائج الوقت رسم  کو، اِسلامی احکامات و تعلیمات کے صریحًا خلاف  اور اُن سے انحراف کے مصداق ، حرام  عمل  ہے قبل از اسلام، دورِ جاہلیت   کے عرب  معاشرے میں میں اس کا  کوئی رواج نہ تھا۔  گویا کہ یہ دور جاہلیت  میں رائج برائیوں سے بھی بد ترین بُرائی ہے جسے اُس دور کے انسانوں نے بھی کبھی گوارا نیا نہ ہی روا رکھا۔
جب بَرِّعظیم (ہندوستان) میں، مسلمانوں کا سابقہ اس جاہلانہ  رسم سے پڑا تو اس کے معاشرتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء نے اس کے جواز یا عدم جواز کی بات کی۔ہمارے ہاں جہیز کا جو تصور موجود ہے، وہ واقعتاً ایک معاشرتی لعنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں اور ان کے اہل خانہ پر ظلم ہوتا ہے۔اگر کوئی باپ، شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کو کچھ دینا چاہے، تو یہ اس کی مرضی ہے اور یہ امر جائز ہے۔ تاہم لڑکے والوں کو مطالبے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو جہیز دیا گیا، وہ اس وجہ سے تھا کہ سیدنا علی نبی کریم ﷺ کے زیر پرورش تھے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آپ نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو کچھ سامان دیا تھا کیونکہ یہ دونوں ہی آپ کے زیر کفالت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے دیگر دامادوں سیدنا ابو العاص اور عثمان رضی اللہ عنہما کے ساتھ شادیاں کرتے وقت اپنی بیٹیوں کو جہیز نہیں دیا تھا۔جہیز سے ہرگز وراثت کا حق ختم نہیں ہوتا ہے۔ وراثت کا قانون اللہ تعالی نے دیا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر شدید وعید سنائی ہے۔ جہیز اگر لڑکی کا والد اپنی مرضی سے دے تو اس کی حیثیت اس تحفے کی سی ہے جو باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔لیکن اس میں اسراف و نمود اور اعلان و نمائش سے بہرطور گریز کرنا چاہیے۔
ناجائز کام میں معاونت بھی ناجائز و گناہ ہے۔ کسی اسلامی و دینی فریضے کی غیر اسلامی  اور حرام و ناجائز طریقے سے بجا آوری کیا معنٰی رکھتی ہے؟ اسلام مخالف ناجائز و حرام رسوم و رواج اور طور و طریقے کے تحت کوئی اسلامی فرض کس طرح انجام پا سکتا ہے؟ دلہے کو ڈھول کی تھاپ اور شہنائیوں کی گونج میں مسجد لیجا کر سلام کروانے کی رسم، غیر محرم جوان لڑکے اور لڑکیوں کا مخلوط محفل میں رقص اور مجرا ، جہیز کا لین دین، لڑکی والوں سے باراتیوں اور دلہا والوں  کی پر تکلف ضیافت اور رشتے داروں کو تحائف کا مطالبہ وغیرہ کیا دین اسلام سے کھلی بغاوت نہیں؟ اگر ایسا کرنا صحیح ہے تو پھر بغیر وضو اور بغیر لباس صلٰوۃ ادا کرنا اور ہر رکعت میں ایک یا تین سجدے کرنا اور ہر رکعت میں ایک فون کال سن لینا یا خود کال کر لینا اور پوری صلٰوۃ ادا کر کے آخر میں فقط ایک ہی بار سلام پھیرنا یا ہر رکعت میں سلام پھیرنا یا ظہر کی تین، عصر کی پانچ، رکعتیں پڑھ کر صلٰوۃ قائم کرنا بھی جائز ہی ہو گا اور  اگر نہیں تو باقی اسلامی فرائض اور احکامات کی تعمیل من مانے غیر اسلامی طریقوں سے کس طرح جائز ہو سکتی ہے؟؟؟ جہیز کا لینا اور دینا صریحاً ناجائز اور حرام ہے،  شادی بیاہ کا مروجّہ طریقہ اور رسومات و رواج مشرکانہ و ہندوانہ، ناجائز و حرام ہیں ، ان کے تحت انجام پانے والی شادی اور عقود نکاح کی شرعی حیثیث متنازع و مشکوک ہے اس میں خیر و برکت تو بعد کی باتیں ہیں پہلے تو اس کا انعقاد ہی مشکوک و متنازع ہے۔  اس طرح کی شادیاں   اسلام کی بنیادی تعلیمات و ہدایات اور احکامات کی مخالفت کر کے اور ان کا  مذاق اُڑانے کے مصداق و مماثل عمل اور معاشرتی لعنت و ناسور ہے۔جہیز سمیت شادی بیاہ کی تمام تر اسلام مخالف مشرکانہ و ہندوانہ رسومات و روائج کا خاتمہ فرض ہے۔ کوئی مالدار باپ اپنی بیٹی کو تحفے میں کچھ دینا چاہے تو دلہا والوں کی خواہش و تقاضے کے بغیر اپنی خوشی سے شادی کے بعد اپنی بیٹی کو غیر اعلانیہ طور پر چپکے سے دے  آئے تو جائز ہے ورنہ نہیں ۔اللہ کا واسطہ دین کو نہیں بلکہ خود کو بدلو!

Friday, 4 September 2015

تمام تر جرائم، کرپشن کی کوکھ سے جنم لیتے اور اسی کے سائے تلے پروان چڑھتے ہیں

بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

تمام تر جرائم، کرپشن کی کوکھ سے جنم لیتے اور اسی کے سائے تلے پروان چڑھتے ہیں
تحریر: پرویز اقبال آرائیں
قوم و ملک کے بہترین اور وسیع تر مفاد میں *"طلبِ جہیز ایک سنگین گناہ و سنگین جرم، بدترین لعنت اور معاشرتی ناسور ہے"*

*از قلم: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں، بانی صدر، تحریک نفاذ ائین، قرآن و سنت پاکستان*

نکاح ایک حکم الٰہی ہے، رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم کی سنت ہے، قرآن و سنت کے احکامات کی روشنی میں نکاح مجموعی طور پر صرف 6 چھ چیزوں کے مجموعے کا نام ہے، جس میں میں دو فرائض، ایک واجب اور تین سنتیں شامل ہیں، فرائض میں دو گواہان کی موجودگی اور دلہے و دلہن کا ایجاب و قبول شامل ہیں، تیسری چیز حق مہر ہے جو کہ واجب ہے، خطبہءنکاح، کھجور یا چھوہارے یا کوئی شیرینی وغیرہ نکاح کے موقع پر موجود حاضرین میں بانٹنا اور رخصتی و ہمبستری کے بعد اگلے دنوں میں دلہے کی طرف سے بعض اعزاء و اقرباء اور چند مساکین کو ولیمے کی ضیافت کا اہتمام کرنا یہ تینوں چیزیں سنت ہیں۔
دلہے والے اگر بارات کو نکاح کے موقع پر کھانا کھلانا چاہیں تو وہ اپنے طور پر اپنے خرچے سے اس کا اھتمام کر سکتے ہیں، دلہن والوں کے خرچ پر پکایا گیا کھانا دلہے، اس کے افراد خاندان، دوست و احباب یعنی باراتیوں کو کھانا جائز نہیں ہے۔ 
جہیز بنیادی طور پر ایک خلافِ اسلام، غیر شرعی، غیر انسانی  و غیر اخلاقی معاشرتی رسم ہے کہ مسلمانوں میں  جو ہندوؤں کے ہاں  سے در آئی ہے۔ خود ان کے ہاں بھی اسے معیوب گردانا جاتا ہے اور  اس کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے مگر افسوس صد افسوس کہ بد قسمتی سے  ہمارے یہاں (مسلمان معاشرے میں) یہ حرام رسم ایک  بد ترین لعنت اور معاشرتی ناسور بن چُکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں کہ سسرالیوں نے  اپنی بہو کو، شوہر نے اپنی دلہن کو کم جہیز لانے پر مٹی کا تیل، پیٹرول، تیزاب  چھڑک کر جلا دیا، جان سے مار دیا، پنکھے سے لٹکا کر، پھانسی یا پھندا لگا کر ہلاک کر دیا، تیز دھار آلے/ چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا اور اسے خود کشی کا رنگ دینے کےلیے ڈھونگ رچایا وغیرہ! کیونکہ مقتولہ کم جہیز لائی تھی۔ 
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
پھر بہو جلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے
پہلے اپنے آنگن میں بیٹیاں جلا دینا!
اسلام  (قرآن و سُنَّۃ) کے احکامات و ہدایات، پیغامات و فرمودات اور تعلیمات میں   کہیں بھی جہیز کو پسندیدہ سمجھا گیا ہے اور نہ ہی اس کو جائز و ضروری قرار دیا گیا ہے بلکہ طلب و تقاضہءِ جہیز کی رائج الوقت رسم  کو، اِسلامی احکامات و تعلیمات کے صریحًا خلاف اور اُن سے انحراف و روگردانی کے مصداق و مماثل، حرام و ناجائز عمل قرار دیا گیا ہے قبل از اسلام، دورِ جاہلیت   کے عرب معاشرے میں اس کا  کوئی رواج نہ تھا۔  گویا کہ یہ دور جاہلیت  میں رائج برائیوں سے بھی بد ترین بُرائی ہے جسے اُس دور کے انسانوں نے بھی کبھی گوارا کیا نہ ہی روا رکھا۔
جب بَرِّصغیر (ہندوستان) میں، مسلمانوں کا سابقہ اس جاہلانہ  رسم سے پڑا تو اس کے معاشرتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء دین نے اس کے جواز یا عدم جواز کے حوالے سے بات نہیں کی۔ ہمارے ہاں جہیز کا جو تصور موجود ہے، وہ واقعتاً ایک معاشرتی لعنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سارے غریب گھرانوں کی معصوم لڑکیوں اور ان کے اہل خانہ پر سنگین ظلم ہوتا ہے۔ 
اگر کوئی ماں باپ، شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کو کچھ دینا چاہیں، تو یہ ان کی صوابدید و مرضی ہے اور یہ امر جائز ہے بشرطیکہ اس کا اعلان کیا جائے نہ ہی نمود و نمائش اور اظہار عام ہو، تاہم لڑکے والوں کو مطالبے کا کوئی حق و اختیار مطلقاً حاصل نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رسول الله صلى الله عليه و آلہ و سلم نے بھی تو اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمة الزہرہ رضی الله تعالٰی عنہا کو جہیز دیا تھا یہ ایک غلط فہمی کی بناء پر پھیلایا جانے والا جھوٹ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللّٰه عليه و آله و سلم نے جو چند اشیاء ضروریہ نکاح کے موقع پر دی تھیں وہ اس وجہ سے دی تھیں کیونکہ سیدنا علی المرتضی کرم الله وجهه الكريم، حضور عليه الصلاة والسلام کے چچا اور سیدنا علی ابن ابی طالب رضی الله تعالٰی عنہ کے والد گرامی کی رحلت کے بعد سے حضرت علی رضی الله تعالٰی عنہ، نبی کریم ﷺ کی کفالت میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہی ان کی پرورش کی تھی۔ اپنی پیاری صاحبزادی کے ساتھ ان کی شادی کے بعد انہیں الگ مکان میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی تو انہیں انتہائی ضرورت کی چند اشیاء حضرت علی کو عطا فرمائی تھیں یوں سمجھ لیجیے کہ آپ نے اپنے زیر کفالت پرورش پانے والے اپنے چچا زاد بھائی کو کچھ سامان دیا تھا کیونکہ یہ وہ بھی حضرت بی بی فاطمہ کی طرح آپ صلی اللّٰه عليه و آله و سلم کے هى زیر کفالت رہے تھے۔ یہ حقائق اس بات سے بھی بخوبی سمجھے جا سکتے ہیں کہ آپ صلی الله عليه و آله و سلم نے اپنے دیگر دامادوں سیدنا ابو العاص اور عثمان رضی الله عنہما کے ساتھ شادیاں کرتے وقت اپنی بیٹیوں کو کوئی بھی چیز جہیز میں نہیں دیی تھی۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جہیز دینے کے بعد بھی کسی صورت بھی کسی لڑکی کاحق وراثت ہرگز ختم نہیں ہوتا ہے۔ وراثت کا قانون الله تعالٰی کے واضح سے لیا گیا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر شدید وعید سنائی گئی ہے۔ جہیز اگر لڑکی کا والد اپنی مرضی سے دے تو اس کی حیثیت اس تحفے کی سی ہے جو باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔لیکن اس میں اسراف و تبذیر  اس کے اعلان و اظہار اور نمود و نمائش سے گریز کرنا ضروری ہے۔

ناجائز کام میں معاونت بھی ناجائز و گناہ ہے۔ کسی اسلامی و دینی فریضے کی غیر اسلامی  اورحرام و ناجائز طریقے سے بجا آوری کیا معنٰی رکھتی ہے؟ اسلام مخالف ناجائز و حرام رسوم و رواج اور طور و طریقے کے تحت کوئی اسلامی فرض کس طرح انجام پا سکتا ہے؟ دلہے کو ڈھول کی تھاپ اور شہنا ئیوں کی گونج میں مسجد لے جا کر سلام کروانے کی رسم، غیر محرم جوان لڑکے اور لڑکیوں کا مخلوط محفل میں رقص اور مجرا، ڈانڈیاں کھیلنا، مہندی و مایوں کی رسومات اور ان مواقع پر مخوط مجالس ،جہیز کا لین دین، لڑکی والوں کی طرف سے باراتیوں اور دلہا والوں کی پر تکلف ضیافت اور رشتے داروں کو تحائف کا مطالبہ وغیرہ کیا دین اسلام سے کھلی بغاوت نہیں؟ اگر ایسا کرنا صحیح ہے تو پھر بغیر وضو اور بغیر لباس صلٰوۃ ادا کرنا اور ہر رکعت میں ایک یا تین سجدے کرنا اور ہر رکعت میں ایک فون کال سن لینا یا خود کال کر لینا یا تھوڑا ڈانس کر لینا اور پوری صلٰوۃ ادا کر کے آخر میں  فقط ایک ہی طرف بار سلام پھیرنا یا ہر رکعت میں سلام پھیرنا یا ظہر کی تین، عصر کی پانچ، رکعتیں پڑھ کر صلٰوۃ ادا کرنا بھی جائز ہی ہونا چاہیے مگر ہم میں سے کوئی بھی ایسا کرتا ہے اور نہ اسے درست و جائز عمل کے طور پر قبول و تسلیم کرنے پر آمادہ ہو سکتا ہے تو پھر نکاح کے حکم الله و سنت رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم سمیت باقی اسلامی فرائض اور احکامات کی تعمیل من مانے، من پسند، من گھڑت، بے بنیاد، ناجائز و حرام اور ممنوع و غیر اسلامی طریقوں سے کس طرح جائز و درست مانی جا سکتی ہے؟؟؟ جہیز کا لینا اور دینا ناجائز اور حرام ہے، شادی بیاہ کا مروجّہ طریقہ اور رسم و رواج مشرکانہ و ہندوانہ، ناجائز و حرام ہیں، ان کے تحت انجام پانے والی شادی اور عقود و نکاح کی شرعی حیثیث متنازع ہے اس میں خیر و برکت تو بعد کی باتیں ہیں پہلے تو اسکا انعقاد ہی مشکوک و متنازع ہے۔ اس طرح کی شادیاں اسلام کے بنیادی احکامات و ہدایات، تعلیمات و فرمودات اور پیغامات کی مخالفت کرنے اور ان کا مذاق اُڑانے کے مصداق و مماثل حرام عمل اور معاشرتی لعنت و ناسور ہے جو بالعموم پورے مسلم معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔ جہیز  سمیت شادی بیاہ کی تمام تر اسلام مخالف مشرکانہ و ہندوانہ رسوم و روائج کےخاتمے اور نکاح کے حکم الله کی تعمیل سنت طریقے پر رائج کرنے کی کوشش کرنا ہر فرد کا مقدس فریضہ ہے اور یہ بھی ایک جہاد کی طرح ہے۔ کوئی مالدار باپ اپنی بیٹی کو تحفے میں کچھ دینا چاہے تو دلہا والوں کی خواہش و تقاضے کے بغیر، رضاکارانہ طور پر اپنی خوشی سے شادی کے بعد، کسی بھی وقت خاموشی کے ساتھ اپنی بیٹی کو غیر اعلانیہ طور پر چپکے سے دے سکتا ہے تب تو جائز ہے ورنہ نہیں کیونکہ اسکو شادی کا لازمی جزو سمجھ کر انجام دینے اور اس کے اظہار و اعلان اور نمود و نمائش کرنے سے کروڑوں غریبوں کی بیٹیاں نکاح سے محروم رہ جاتی ہیں یا ان کے والدین کو اپنے گھر بار، اثاثے فروخت کر کے یا پھر سودی قرض لے کر اپنی بیٹیوں کی شادیاں کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، حالانکہ سودی لین دین کے معاملات الله تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللّٰه عليه و آله و سلم کے ساتھ جنگ کرنے کے مصداق و مماثل خوفناک و خطرناک جرم و گناہ اور حرام و بدترین عمل ہے۔ الله کا واسطہ دین کو نہیں بلکہ خود کو بدلیے اور عقل سلیم و فہم و شعور کو بروئے کار لائیے!
 کلین اپ کر کے ، مذہبی کرپشن سمیت ہر طرح کی کرپشن کی جڑیں کاٹنا انتہائی ضروری ہے!
بلاشبہ کرپشن ایک معاشرتی ناسور ہے، اس حقیقت سے سرِ مو انحراف بھی سورج کی روشنی کا انکار کرنے کے مترادف ہے کہ ہر طرح کے تمام تر جرائم، کرپشن کی کوکھ سے جنم لیتے اور اسی کے سائے تلے پروان چڑھتے ہیں، جبکہ کرپشن کی بنیادی وجہ دین سے دوری ، راہِ ھدایت "صراطِ مستقیم "سے بھٹک جانا ہے اور اس گمراہی و بے راہ روی کا اصل سبب مذہبی کرپشن ( فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت) ہے اور اس فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت کا باعث نام نہاد مذہبی پیشوا ہیں جنہوں نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل، ذاتی اغراض و مقاصد، مالی و مادی منفعت، معاشی، معاشرتی، سیاسی مقاصد کے حصول و تحفظ کی خاطر، اپنی اپنی پسند کے من گھڑت اور خود ساختہ برانڈیڈ اسلامی مذاہب متعارف کروا کے لوگوں کو اصل دینِ اسلام (قرآن و سنّۃ، اسوۃ الحسنہ اور صحابہءِ کرام کے طرزِ عمل سے بیگانہ کر دیا ہے اوردینِ اسلام اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی اطاعت و اتباع سے ہٹا کران کی تعلیمات و احکامات کے برعکس اپنے اپنے فرقوں کے اکابرین کی پیروی پر لگا رکھا ہے، چنانچہ سب سے پہلے فرقہ پرستی کی جڑیں کاٹنے، بیخ کنی اور اس بدترین مذہبی کرپشن کا مکمل سدِّ باب کرنے کیلئے مؤثر آپریشن کلین اپ کرنے کی فوری اور اژّد ترین ضرورت ہے۔ اس کے بغیر دیگر اقسام کی کرپشن کے مؤثر تدارک اوراس پر قابو پانے سمیت کسی بھی قسم کی اصلاح احوال کا خواب دیکھنا بالکل بےسود و عبث ہے. ہرظالم اور ظلم، ناانصافی اور حق تلفی نیز ہرطرح کی مذہبی و دیگر اقسام کی کرپشن کے خلاف حق اور سچ کی آواز بلند کرنا جہاد جبکہ خاموشی بزدلی، بے ایمانی و بد دیانتی، بےحسی و منافقت ہے جو ان سنگین ترین جرائم کی بیخ کنی کے بجائے ان میں اضافے، حوصلہ افزائی و معاونت کرنے کے مترادف قومی و معاشرتی جرم، گناہِ عظیم ہے، اب تک ہم سب بھی اس مجرمانہ غفلت کے مرتکب رہے ہیں لیکن اب بہت ضروری ہے کہ قوم و ملک کے وسیع تر و بہترین مفاد میں ، ہر طرح کی کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ہر ادارہ اپنا اپنا اور ہم سب اپنا اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ ہر پاکستانی کو اس کے جائز، آئینی و قانونی اور بنیادی و انسانی حقوق کی مساویانہ طور پر فراہمی نیز حصول و تحفظ کو بہر صورت یقینی بنایا ئے۔ اسلامی دفعات و شقوں اور شہریوں کے بنیادی و انسانی حقوق سے متعلقہ دفعات اور شقوں سمیت ، پورے کے پورے آئینِ پاکستان کو مکمّل طور پر اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کیا جائے۔ قوم و ملک کے بہترین اور وسیع تر مفاد میں فوج سمیت تمام ادارے ، محکمے اور معاشرے کے تمام طبقات اپنے اپنے آئینی دائرہءِ کار کے اندر رہتے ہوئے پوری فرض شناسی، ایمانداری، دیانتداری اور کامل اخلاص کے ساتھ فرائضِ منصبی سرانجام دیں اور مذہبی کرپشن سمیت ہر طرح کی پرپشن کا قلع قمع کرنے میں ایک دوسرے کا بھر پور ساتھ دیں۔

  ماضی کے مارشل لاؤں سے سبق سیکھنا چاہیئے! کہ کیا وطنِ عزیز سے کرپشن کا خاتمہ کردیا تھا یا کہ اس میں کئی گنا اضافے کا سبب ثابت ہوئے تھے؟ کرپشن کیا صرف سولین پاکستانی ہی کرتے ہیں؟ کیا ہر ایک فوجی صالح و متّقی یا فرشتہ صفت اور ہر سولین شیطانی اوصاف کا حامل ہے؟ یا پھر اچھے برے انسان معاشرے کے ہر طبقے اورملک کے ہر چھوٹے بڑے  ادارے میں ضرور موجود ھوتے ہیں؟ سولین پاکستانیوں اور ملک کے سول  اداروں اور محکموں سے کرپشن کا خاتمہ کیا  فوج کا کام ہے؟ کیا فوجی قیادت کو افواجِ پاکستان اور ان کے ماتحت اداروں سے کرپشن  کے مکمّل خاتمے کو یقینی بنانے کا کام نہیں کرنا چاہیئے؟ ملک کے سولین اداروں، محکموں اور معاشرے کے تمام طبقات سمیت سیاست و ریاستِ پاکستان سے کرپشن کی اس لعنت سے نجات کا حصول کیاعوام کی منتخب جمہوری حکومت، عدلیہ اور ہم سب کی مشترکہ ذمّہ داری نہیں ہے؟ ہم تو کرپٹ ترین عناصر کو اپنا سیاسی قائد مانیں انہی کو "بڑا آدمی" سمجھیں انہی کو بار بار ووٹ دے کر منتخب کریں اور ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دیتے رہیں اور فوج سے مطالبہ کریں کہ سولین کرپٹ عناصر کو کیفرِ کردار تک پہنچائے، کیا یہ کھلا تضاد، حماقت و منافقت نہیں۔ فوج نے منتخب عوامی و جمہوری حکومت کی  مرضی اور حمایت کے بغیر اگر کبھی ایسا کوئی قدم اٹھایا تو عوام الناس کی بڑی اکثریت نے پھر پلٹ ان ہی مفاد پرست، خود غرض، کرپٹ، عادی جرائم پیشہ  عناصر کی سپّورٹ میں پرتشدد احتجاج کیلئے اٹھ کھڑے ہونا ہے (کیوں کہ زیادہ  لوگ ایسے عناصرکو ہی "بڑا آدمی"  مانتے ہیں) خاکم  نتیجتاً بدہن! ملک میں انارکی پیدا کرنے کا دشمن کا دیرینہ خواب پورا ہو جانا ہے۔  
 ہماری مسلح افواج کو (جن پر کہ ہمیں بجا طور پر فخرہے) سیاسی دنگل میں حصّہ دار ی پر اکسانے والے عناصر، دراصل اپنی غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے ہر اچھے عمل کا کریڈٹ صرف اور صرف افواجِ پاکستان کی اعلٰی کمان کودینے اور ہر برے کام کا ذمّہ دار فقط قومی سیاسی قیادت کو قرار دے دیتے ہیں جو کہ دیانتدارانہ  و منصفانہ طرزِ ِ فکر و عمل نہیں ہے۔ چاپلوسی اور خوشامد کے ایکسپرٹ چند عناصر قوم کو کنفیوژن میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، یہ نادان عناصر اگر مسلح افواج کو متنازع بنا کر پاکستان دشمنوں کو خوش کرنے کی گھناؤنی سازشوں سے باز نہیں آتے تو ہمیں ان کے مذموم عزائم کو بے نقاب ضرور کرتے رہنا چاہئے  یہ بھی  اس وقت  حبّ الوطنی کا ایک اہم  تقاضہ ہے۔  بہت ضروری ہے کہ ہر ادارہ اپنے اپنے آئینی دائرہءِ کار کے اندر یکسو رہتے ہوئے اپنے اپنے فرائضِ منصبی کو پوری ایمانداری، دیانتداری اور فرض شناسی کے ساتھ انجام دے ۔   ھمیں بہرصورت یاد رکھنا چاہیئے کہ مسلّح افواج اورنیشنل سیکورٹی کے ادارے، انٹیلیجنس ایجنسیز ہر ملک میں ہوتی ہیں  اورانڈیا سمیت دنیا کے اکثرو بیشتر ممالک میں وہ اپنے آئینی دائرہءِ کاراورقانونی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے، سول حکومتوں کی ماتحتی میں ہی اپنے فرائضِ منصبی سرانجام دیتی ہیں اور یہ عمل پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کی ترقی، استحکام، قومی سلامتی اور وقار کے لئے نہایت ضروری بھی ہوتا ہے۔  بد قسمتی سے ہمارے ملک و معاشرے میں بعض  ایسے عاقبت نا اندیش عناصر  پر مشتمل ایک لابی ایسی بھی موجود رہتی ہے  جو کسی بھی بہانے پاکستان کی قابلِ فخر، جرأتمند، بہادر اور محبِّ وطن مسلح افواج  کی توجّہ ان کے اصل (آئینی) فرائضِ منصبی اور پیشہ وارانہ ذمّہ داریوں سے  ہٹانے اور ان کو   سیاسی معاملات میں گھسیٹنے کی مذموم و مکروہ سازشوں میں مصروفِ عمل ہیں ،  ایسے عاقبت نا اندیش عناصر ہماری مسلح افواج کو متنازع بنا کر ، دراصل پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے عناصر کی ہر سطح پر سخت ترین  مذمّت اور حوصلہ شکنی پاکستان کے ہر محبّ وطن شہری کا فرض ہے، کیونکہ آج ہر پاکستانی اپنی مسلّح افواج پر فخر کرتا ہے اور پوری  پاکستانی قوم متحد  ہو کر ، دل و جان سے اپنی افواج  کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے خدا نخواستہ فوج نے سیاسی اقتدار پر غیر آئینی تسلّط جمانے کی کوشش کی تو قوم تقسیم ہو جائے گی،   عوام النّاس کی واضح اکثریت   اگرچہ کہ سیاسی قیادت کی کرپشن اور ناقص کارکردگی سے نالاں ضرور ہے  مگر ایسے کسی بھی غیر آئینی عمل کی حمایت ہرگز نہیں کرے گی اور نہ ہی کرنی چاہیئے۔   ملک اس وقت نازک ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ اس وقت پوری پاکستانی  قوم کا متحد و منظم ہو کر متفقہ طور پر بدستور اپنی مسلّح افواج کی دل و جان سے حمایت جاری رکھنا انتہائی ضروری ہے




پچاسویں یومِ دفاعِ پاکستان کے موقع پرپیغام

بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
پچاسویں یومِ دفاعِ پاکستان  کے موقع پرپیغام
تحریر: پرویز اقبال آرائیں
وطن کی ناموس اور حُرمت پر کٹ مرنے کا جذبہ اور سلیقہ عساکرِ پاکستان کا منفرد اعجاز اور بیش قیمت سرمایہ ہے۔یہ سلیقہءجانثاری پاکستانی فوج کے ہر سپاہی کے خمیر میں شامل ہے اور جذبہءشہادت اِسکا وہ ہتھیار ہے جسکا دشمن کے پاس کوئی توڑ موجود نہیں۔ یہ ا س فوج کا سپاہی ہے جو اپنے اُصولی موقف ،نظریہ ءحیات اور قومی وقار کی خاطر ہر آسائش ،مال و دولت حتیٰ کہ جان تک کی قربانی دینا جانتی ہے۔قیامِ پاکستان کے 18سال بعد ، آج سے ٹھیک پچاس سال پہلے چھ ستمبر 1965 کو ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان نے سارے بین ا لاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر بین الاقوامی سر حد عبور کیا اور لا ہور سیکٹر پر یلغار کر دی۔ اچانک پاکستانی قوم کو پتہ چلا کہ ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا ہے اور اب تھو ڑی دیر میں پاکستان کے صدر فیلڈ ماشل محمد ایوب خان قوم سے خطاب کرنے والے ہیں، واضح رہے کہ اس زمانے میں ریڈیو بھی کسی کسی کے پاس ہوا کرتاتھا ، سب لوگ ریڈیو پر صدر کا خطاب سننے کےلئے جمع ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں ریڈیو پرقومی ترانہ نشر ہوا اور اس کے فورا بعد صدر ایوب خان کی گرجدار آواز گو نجی ان کی تقریر کے کچھ جملے آج بھی ہمارے بزرگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں انہوں نے کہا ’’ میرے عزیز ہم وطنو ! بھارت نے اعلانِ جنگ کئے  بغیر     بین ا لاقوامی سر حد عبور کرتے ہوئے ہم پر حملہ کیا ہے، اسے معلوم نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے، میرے جوانو ! لا ا لہ الاﷲ کا ورد کرتے ہو ئے دشمن پر ٹوٹ پڑو ‘‘ایوب خان کی تقریر نے سامعین میں ایک عجیب سا ولولہ پیدا کر دیا۔پوری قوم  نعرہءِ تکبیر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے، وطن کی  حفا ظت کے لئے تن من دھن کی قربا نی کے لئے اٹھ کھڑی ہو ئی۔ستمبر 1965ءکو افواجِ پاکستان اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری میں وطنِ عزیز کے لئے اِس وقت دفاعی حصار بن گئیں جب بھارت نے لاہور کے نواح میں تین مقامات پر پاکستانی سرحدوں کو عبور کرکے بھرپور حملہ کر دیا ۔پاکستان کے غیور عوام اور فوج نے مل کر اِس چیلنج کو قبول کیا اور وطنِ عزیز کی مقدس زمین کو بھارت کے ناپاک قدموں سے پاک کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔
بھارتی فوج نے سترہ دنوں کے اندر تیرہ بڑے حملے کئے لیکن وہ لاہور کے اندر داخل نہ ہو سکی۔ ۷ ستمبر 1965ءکو دشمن نے اپنی کاروائی کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے راولپنڈی،کراچی،سرگودھا،ڈھاکہ،چٹا گانگ،جیسور اور رنگ پور پر فضائی حملے کئے جن کا نشانہ نہتے شہری بنے۔دوسری جانب پاک فضائیہ نے بھی دُشمن کی اِس حرکت پر اِسے پوری سزا دی۔سری نگر کے ہوائی اڈے پر کامیاب حملے کئے گئے اور مختلف فضائی حملوں میں بھارت کے31طیارے تباہ کر دئیے گئے۔بھارت کے مشرقی حصوں پر بھی حملے کر کے پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے 11کینبرا اور 4دوسرے جہاز زمین پر تباہ کر دئیے۔۸ ستمبر 1965کو بھارت نے اپنی تباہی کی جانب ایک اور قدم اُٹھاتے ہوئے پاکستان کے مغربی حصے میں دو اور محاز کھول دئیے۔
سیالکوٹ اور حیدرآبادکے نزدیک دو مقامات پر اس نی ہماری سرحدوں مےں گھسنے کی کوشش کی ۔سیالکوٹ کے علاقہ میں زبر دست جوابی کاروائی میں پاکستانی فوج نے دُشمن کے 25ٹینک تباہ کر دئیے،5فیلڈ گنیں قبضہ میں لے کر بہت سارے فوجی قیدی بھی بنائے گئے ۔چھمب کے علاقہ میں بھی بھارتی فوج کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا ۔اسی روز پاک فضائیہ کے بہادر جوانوں نے ہلواڑہ اور جودھ پور کے ہوائی اڈوں میں نیچی پروازیں کر کے رَن ویز کو سخت نقصان پہنچانے کے علاوہ دُشمن کے بہت سے طیارے بھی تباہ کر دئیے۔بھارت نے 20کینبرا طیاری بھیج کر سرگودھا کے ہوائی اڈے کو پھر نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن پاک فضائیہ نے انکی کوئی پیش نہ چلنے دی ۔منوڑہ کراچی پر بھی اِسی روز حملے کے جواب میں پاک بحریہ نے دُشمن کے تین طیارے تباہ کر دئیے۔
۹ ستمبر 1965ءپاک فوج نے قصور اور واہگہ کے سیکٹروں میں زبردست جنگ کے بعد دُشمن کی فوجوں کو پوری طرح پیچھے ہٹا دیا اور بھارت کی بھاگتی ہوئی فوج بہت سا جنگی سامان بھی چھوڑ گئی۔ جس میں توپیں ،گاڑیاں اور گولہ بارود بھی شامل تھا ۔ پاک فضائیہ نے پٹھانکوٹ اور جودھپور کے ہوائی مرکزوں پر اپنے حملے جاری رکھے اور رَن ویز کے علاوہ فوجی اہمیت کے دوسر ے ٹھکانوں کو زبردست نقصان پہنچایا ۔۰۱ ستمبر 1965ءپاک فوج نے جنگ کا پانسہ پلٹتے ہوئے دشمن کے علاقے کے کافی اندر جا کر کئی چوکیوں پر قبضہ کر لیا ۔واہگہ محاز پر بھی دشمن کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔بیدیاں اور کھیم کرن سیکٹر میں دشمن پر دبا
بڑھتا جا رہا تھا۔ سیالکوٹ محاز پر دشمن کے سات ٹینک تباہ کر دئیے گئے ۔جوڑیاں کے علاقہ میں آزاد کشمیر کی فوجوں نے دو اہم چوکیوں پر قبضہ بھی کر لیا۔
۱۱ ستمبر 1965ءپاک فوج نے بھارتی علاقہ کھیم کرن پر قبضہ کر لیا اور پیش قدمی اِس مقام سے آگے جارہی تھی ۔اِس روز سیالکوٹ محاز پر سخت لڑائی جاری تھی جس میں دشمن کے 36ٹینک تباہ کر دئے گئے ۔اکھنوڑ کے علاقہ میں بھی بھارت کا کافی نقصان ہو رہا تھا ۔جبکہ دیوا کے شمال میں بھی ایک اور چوکی پر قبضہ کر لیا گیا اور پوزیشن مستحکم کر لی گئی ۔ہمارے طیاروں نے مغربی بنگال میں باغ ڈوگر کے ہوائی اڈے پر حملہ کر کے ایک ہنٹر اور ایک ویمپائر طیارہ اور بہت سے فوجی ٹھکانے بھی تباہ کر دئیے۔سیالکوٹ کے علاقہ میں ہمارے طیاروں نے دُشمن کی بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ لاہور اور ہلواڑہ میں بھی اِس روز دُشمن کو کافی نقصان پہنچا۔۲۱ستمبر 1965ءکو پاکستان کی بہادر فوج نے خونریز جنگ کے بعد دشمن کے ٹینکوں کے حملے کو پسپا کر دیا اور دشمن کی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا۔اسکے مزید 45ٹینک تباہ ہو گئے۔کھیم کے قریب358 بھارتی سپاہیوں نے ہماری فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ان کا تعلق چوتھی رجمنٹ سے تھا اور ان میں بیشتر سکھ تھے ۔
سلیمانکی کے نزدیک بھی ہماری فوج نے دشمن کی بہت سی چوکیوں پر قبضہ کر لیا ۔یہاں پاک فضائیہ نے اٹھائیس ٹینک اور 123بھاری گاڑیاں تباہ کر کے بری فوج کا ہاتھ بٹایا ۔۳۱ستمبر 1965ءہماری فوجوں نے زمین پر اور ہوا میں دشمن کے 9طیارے اور 47ٹینک تباہ کر دئیے۔بھارتی فضائیہ کے دو مرکزوں میں آگ لگا دی اور دُشمن کی بہت سی چوکیوں پر قبضہ کر لیا ۔لاہور محاز پر پاکستانی فوج کا دبا
مسلسل بڑہ رہا تھا ۔سیالکوٹ جموں سیکٹر میں دشمن کے کئی حملوں کو پسپا کر دیا گیا اور انہیں پیچھے ہٹا کر دم لیا ۔میر پور خاص ریلوے لائن پر بھارتی علاقہ میں ایک ریلوے اسٹیشن مونا با پر بھی قبضہ کر لیا گیا ۔
ہماری فضائیہ نے امرتسر کے مضافاتی علاقوں کے علاوہ پٹھانکوٹ،آدم پور ،جودھپور اور آدم نگر کے ہوائی مرکزوں میں فوجی ٹھکانوں کو خاکستر کر دیا۔ہر آنے والا دِن بھارتی فوج کو تمام محازوں پر زلیل و خوار کر رہا تھا ۔6ستمبر1965ءسے لے کر 23ستمبر1965ءتک 17دن جاری رہنے والی اِس جنگ میں بھارتی فوج کی تاریخی پٹائی ہوئی ۔آج ۳۲ ستمبر 1965ءکی صبح تھی جب سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق سارے محازوں پر جنگ بند ہو گئی ۔جنگ بندی ۲۲ ستمبر 1965ءکو دن بارہ بجے ہونی تھی ۔مگر بھارت نے پندرہ گھنٹے کی مہلت لے لی ۔اسے خوش فہمی تھی کہ فائر بندی کے فیصلہ کے بعد پاکستانی فوج غافل ہو جائے گی چنانچہ اس نے اس مہلت سے نا جائز فائدہ اُٹھانا چاہا اور تین بجے صبح سے پہلے اپنی مخصوص مکا رانہ زہنیت کا ثبوت دیا ۔اس نے بعض محازوں پر پیش قدمی کی کوشش کے علاوہ ہماری بحریہ پر بھی وار کرنے کی کوشش کی ۔کھلے سمندر میں بھارت کے جنگی جہازوں نے ہماری بحریہ کے ایک یونٹ پر حملہ کر دیا ۔ہماری یونٹ نے جوابی کاروائی کرکے دشمن کا ایک چھوٹا جنگی جہاز غرق کر دیا اور ہماری بحریہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکا۔واہگہ میں بھی بھارتی فوجوں نے قدم بڑھانے کی کوشش کی لیکن ہماری بہادر فوج نے انکا حلیہ بگاڑ دیا۔اِس جنگ میں ہمارے بھی بہت سارے بہادر جوانوں نے جان کے نذرانے دئیے۔
6ستمبریومِ دفاعِ پاکستان کے طور پر ہر سال اِن شہیدوں اور غازیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے منایا جا تا ہے جنہوں نے وطنِ عزیز کی سالمیت اور یکجہتی کے تحفظ کے لئے عظیم قربانیاںدیں ۔یومِ دفاعِ پاکستان اس عہد کی تجدید کا دن بھی ہے کہ اگر ہم ایمان ،اتحاد اور نظم جیسی اعلیٰ خصوصیات اپنے اندر سمو لیں جو بانیءپاکستان قائد اعظم کے رہنما اصول تھے تو کوئی بھی جارح ہمارے ملک کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔6ستمبر 1965ءوہ دن ہے جب عددی برتری کے زعم میں مبتلا ہمارے دشمن نے پاکستان کو محکوم بنانے کی کوشش کی اور پوری دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ پاکستان کے عوام اور افواج دشمن کے عزائم کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور اسکے منصوبے خاک میں ملا دئیے۔
ہماری طاقت عددی برتری میں نہیں بلکہ ایمان کی پختگی میں تھی ۔1965ءکے بعد ہم طویل سفر طے کر چکے ہیںاور اب ہمارا دشمن ہمارے ساتھ جنگ لڑنے کی بجائے عوام اور افواجِ پاکستان کے مابین نفرتیں پھیلانے کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے ۔لیکن ہماری قوم کو دشمن کے اِس پروپیگنڈے کا بھی منہ تور جواب دینا ہو گا ۔یاد رکھئے کہ قوم کو ملک کی سالمیت ،حفاظت اور وقار کے لئے بیش بہا قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔وسائل کی کمی کے باوجود قوم افواجِ پاکستان کی جنگی اہلیت اور حربی ضروریات کو پورا کر رہی ہے۔ دشمن کے بزدلانہ ہتھکنڈوں کو دیکھ کر آج یومِ دفاع کے موقع پر جنگِ ستمبر کے اُنہی جذبوں اور ولولوں کی یادیں تازہ ہو گئی ہیں ۔آئیے آج یہ عہد کریں کہ ہم سب مل کر سرحدوں کے پاسبانوں کا ہر آڑے وقت میں ساتھ دیں گے اور دشمن کے ہر پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیں گے۔
قوموں کی تاریخ میں کچھ دن ایسے آ تے ہیں جو عام دنوں کی نسبت بڑی قربانی مانگتے ہیں۔ایسے دن ماٗؤں سے ان کے جگر گو شے،اور بو ڑھے باپوں سے ان کی زندگی کا سہا را  اپنے پیارے وطن پرنثار کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔قربانی کی لا زوال داستانیں رقم ہو تی ہیں، سروں پر کفن باندھ کر سرفروشانِ وطن رزم گاہِ حق و باطل کا رخ کرتے ہیں، کچھ جامِ شہادت نوش کرکے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غا زی بن کر سر خرو ہو جاتے ہیں۔تب جا کر کہیں وطن اپنی آزادی، وقار اور علیحدہ تشخص برقرار رکھنے میں کا میاب ہو تے ہیں۔ستمبر 1965کی جنگ میں ایسا ہی ہوا۔ورنہ بھا رت کا تو خیال تھا کہ پاکستان پر ہم پانچ دنوں میں قبضہ کر لیں گے۔ لا ہور پر حملہ کرنے والے بھارتی جر نیل نے ریڈیو پر اعلان کرکے یہ دعو یٰ کیا تھا کہ وہ صبح کا نا شتہ لاہور کے شالا مار با غ میں کرینگے مگر انہیں اندازا نہیں تھا کہ شیر سویا ہوا بھی ہو ، تب بھی شیر ، شیر ہو تا ہے۔افواجِ پاکستان اور عوامِ پاکستان نے مل کر دیوانہ وار دشمن کا مقابلہ کیا۔ایک روز ہمارے گا وں میں افواہ پھیلی کہ سامنے تین کلو میٹر دور پہاڑ پر انڈیا کے کمانڈو ز اترے ہیں، بس پھر کیا تھا، کوئی بندوق لیکر ،کو ئی کلہا ڑی لے کر اور میرا جیسا نو جوان بچہ ہا تھ میں لا ٹھی لے کر پہاڑ کی طرف دوڑنے لگے۔ ایک عجیب جوش تھا، ایک عجیب ولولہ تھا، جسے آج بھی یا د کرتا ہو ں تو میرے رگوں میں خون کی گردش تیز ہو جا تی ہے۔ عوام اور افواجِ پاکستان کے جوشِ ایمانی نے ہندو بنئے کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔
طاقت کے نشے سے چور بھارت پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹا نے کے لئے آ یا تھا مگر ناکامی کا بد نما داغ ہمیشہ کے لئے اپنے سینے پر سجا کر چلا گیا۔افواجِ پاکستان نے چھ ستمبر 1965کو بہادری،جرات اور قربانی کی ایسی ایسی بے مثال مثالیں قائم کیں ،کہ پوری دنیا انگشت بدانداں ہو گئی۔
آج ہم پچاسواں یومِ دفاع جن حالات میں منا رہے ہیں ۔وہ یقینا صرف افسوسناک ہی نہیں ، تشوشناک بھی ہیں ۔ان حالات میں ہمار ا دل خون کے آ نسو رو رہا ہے۔ہمارے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے۔اندریں حالات ہم اپنے اربابِ اختیار اور دوسرے سیاسی راہنما وں سے جن کا تعلق خواہ کسی بھی پا رٹی سے ہو، اپیل کرتے ہیں کہ خدا کے لئے، آج یومِ دفاع پر عہد کریں کہ اپنی قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیں گے اور پوری دیانتداری اور خلوصِ دل سے لوگوں کے حقوق اور عدل و انصاف کا سو چیں گے۔ہماری دعا ہے کہ اگلے یومِ دفاع پر پاکستان پہلے سے زیادہ محفوظ اور متحد ہو!
قوم و ملک کے بہترین اور وسیع تر مفاد میں مؤثرآپریشن کلین اپ کر کے ، مذہبی کرپشن سمیت ہر طرح کی کرپشن کی جڑیں کاٹنا انہائی ضروری ہے! بلاشبہ کرپشن ایک معاشرتی ناسور ہے، اس حقیقت سے سرِ مو انحراف بھی سورج کی روشنی کا انکار کرنے کے مترادف ہے کہ ہر طرح کے تمام تر جرائم، کرپشن کی کوکھ سے جنم لیتے اور اسی کے سائے تلے پروان چڑھتے ہیں، جبکہ کرپشن کی بنیادی وجہ دین سے دوری ، راہِ ھدایت "صراطِ مستقیم "سے بھٹک جانا ہے اور اس گمراہی و بے راہ روی کا اصل سبب مذہبی کرپشن ( فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت) ہے اور اس فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت کا باعث نام نہاد مذہبی پیشوا ہیں جنہوں نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل، ذاتی اغراض و مقاصد، مالی و مادی منفعت، معاشی، معاشرتی، سیاسی مقاصد کے حصول و تحفظ کی خاطر، اپنی اپنی پسند کے من گھڑت اور خود ساختہ برانڈیڈ اسلامی مذاہب متعارف کروا کے لوگوں کو اصل دینِ اسلام (قرآن و سنّۃ، اسوۃ الحسنہ اور صحابہءِ کرام کے طرزِ عمل سے بیگانہ کر دیا ہے اوردینِ اسلام اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی اطاعت و اتباع سے ہٹا کران کی تعلیمات و احکامات کے برعکس اپنے اپنے فرقوں کے اکابرین کی پیروی پر لگا رکھا ہے، چنانچہ سب سے پہلے فرقہ پرستی کی جڑیں کاٹنے، بیخ کنی اور اس بدترین مذہبی کرپشن کا مکمل سدِّ باب کرنے کیلئے مؤثر آپریشن کلین اپ کرنے کی فوری اور اژّد ترین ضرورت ہے۔ اس کے بغیر دیگر اقسام کی کرپشن کے مؤثر تدارک اوراس پر قابو پانے سمیت کسی بھی قسم کی اصلاح احوال کا خواب دیکھنا بالکل بےسود و عبث ہے. ہرظالم اور ظلم، ناانصافی اور حق تلفی نیز ہرطرح کی مذہبی و دیگر اقسام کی کرپشن کے خلاف حق اور سچ کی آواز بلند کرنا جہاد جبکہ خاموشی بزدلی، بے ایمانی و بد دیانتی، بےحسی و منافقت ہے جو ان سنگین ترین جرائم کی بیخ کنی کے بجائے ان میں اضافے، حوصلہ افزائی و معاونت کرنے کے مترادف قومی و معاشرتی جرم، گناہِ عظیم ہے، اب تک ہم سب بھی اس مجرمانہ غفلت کے مرتکب رہے ہیں لیکن اب بہت ضروری ہے کہ قوم و ملک کے وسیع تر و بہترین مفاد میں ، ہر طرح کی کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ہر ادارہ اپنا اپنا اور ہم سب اپنا اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ ہر پاکستانی کو اس کے جائز، آئینی و قانونی اور بنیادی و انسانی حقوق کی مساویانہ طور پر فراہمی نیز حصول و تحفظ کو بہر صورت یقینی بنایا ئے۔ اسلامی دفعات و شقوں اور شہریوں کے بنیادی و انسانی حقوق سے متعلقہ دفعات اور شقوں سمیت ، پورے کے پورے آئینِ پاکستان کو مکمّل طور پر اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کیا جائے۔ قوم و ملک کے بہترین اور وسیع تر مفاد میں فوج سمیت تمام ادارے ، محکمے اور معاشرے کے تمام طبقات اپنے اپنے آئینی دائرہءِ کار کے اندر رہتے ہوئے پوری فرض شناسی، ایمانداری، دیانتداری اور کامل اخلاص کے ساتھ فرائضِ منصبی سرانجام دیں اور مذہبی کرپشن سمیت ہر طرح کی پرپشن کا قلع قمع کرنے میں ایک دوسرے کا بھر پور ساتھ دیں۔
  ماضی کے مارشل لاؤں سے سبق سیکھنا چاہیئے! کہ کیا وطنِ عزیز سے کرپشن کا خاتمہ کردیا تھا یا کہ اس میں کئی گنا اضافے کا سبب ثابت ہوئے تھے؟ کرپشن کیا صرف سولین پاکستانی ہی کرتے ہیں؟ کیا ہر ایک فوجی صالح و متّقی یا فرشتہ صفت اور ہر سولین شیطانی اوصاف کا حامل ہے؟ یا پھر اچھے برے انسان معاشرے کے ہر طبقے اورملک کے ہر چھوٹے بڑے  ادارے میں ضرور موجود ھوتے ہیں؟ سولین پاکستانیوں اور ملک کے سول  اداروں اور محکموں سے کرپشن کا خاتمہ کیا  فوج کا کام ہے؟ کیا فوجی قیادت کو افواجِ پاکستان اور ان کے ماتحت اداروں سے کرپشن  کے مکمّل خاتمے کو یقینی بنانے کا کام نہیں کرنا چاہیئے؟ ملک کے سولین اداروں، محکموں اور معاشرے کے تمام طبقات سمیت سیاست و ریاستِ پاکستان سے کرپشن کی اس لعنت سے نجات کا حصول کیاعوام کی منتخب جمہوری حکومت، عدلیہ اور ہم سب کی مشترکہ ذمّہ داری نہیں ہے؟ ہم تو کرپٹ ترین عناصر کو اپنا سیاسی قائد مانیں انہی کو "بڑا آدمی" سمجھیں انہی کو بار بار ووٹ دے کر منتخب کریں اور ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دیتے رہیں اور فوج سے مطالبہ کریں کہ سولین کرپٹ عناصر کو کیفرِ کردار تک پہنچائے، کیا یہ کھلا تضاد، حماقت و منافقت نہیں۔ فوج نے منتخب عوامی و جمہوری حکومت کی  مرضی اور حمایت کے بغیر اگر کبھی ایسا کوئی قدم اٹھایا تو عوام الناس کی بڑی اکثریت نے پھر پلٹ ان ہی مفاد پرست، خود غرض، کرپٹ، عادی جرائم پیشہ  عناصر کی سپّورٹ میں پرتشدد احتجاج کیلئے اٹھ کھڑے ہونا ہے (کیوں کہ زیادہ  لوگ ایسے عناصرکو ہی "بڑا آدمی"  مانتے ہیں) خاکم  نتیجتاً بدہن! ملک میں انارکی پیدا کرنے کا دشمن کا دیرینہ خواب پورا ہو جانا ہے۔  
 ہماری مسلح افواج کو (جن پر کہ ہمیں بجا طور پر فخرہے) سیاسی دنگل میں حصّہ دار ی پر اکسانے والے عناصر، دراصل اپنی غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے ہر اچھے عمل کا کریڈٹ صرف اور صرف افواجِ پاکستان کی اعلٰی کمان کودینے اور ہر برے کام کا ذمّہ دار فقط قومی سیاسی قیادت کو قرار دے دیتے ہیں جو کہ دیانتدارانہ  و منصفانہ طرزِ ِ فکر و عمل نہیں ہے۔ چاپلوسی اور خوشامد کے ایکسپرٹ چند عناصر قوم کو کنفیوژن میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، یہ نادان عناصر اگر مسلح افواج کو متنازع بنا کر پاکستان دشمنوں کو خوش کرنے کی گھناؤنی سازشوں سے باز نہیں آتے تو ہمیں ان کے مذموم عزائم کو بے نقاب ضرور کرتے رہنا چاہئے  یہ بھی  اس وقت  حبّ الوطنی کا ایک اہم  تقاضہ ہے۔  بہت ضروری ہے کہ ہر ادارہ اپنے اپنے آئینی دائرہءِ کار کے اندر یکسو رہتے ہوئے اپنے اپنے فرائضِ منصبی کو پوری ایمانداری، دیانتداری اور فرض شناسی کے ساتھ انجام دے ۔   ھمیں بہرصورت یاد رکھنا چاہیئے کہ مسلّح افواج اورنیشنل سیکورٹی کے ادارے، انٹیلیجنس ایجنسیز ہر ملک میں ہوتی ہیں  اورانڈیا سمیت دنیا کے اکثرو بیشتر ممالک میں وہ اپنے آئینی دائرہءِ کاراورقانونی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے، سول حکومتوں کی ماتحتی میں ہی اپنے فرائضِ منصبی سرانجام دیتی ہیں اور یہ عمل پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کی ترقی، استحکام، قومی سلامتی اور وقار کے لئے نہایت ضروری بھی ہوتا ہے۔  بد قسمتی سے ہمارے ملک و معاشرے میں بعض  ایسے عاقبت نا اندیش عناصر  پر مشتمل ایک لابی ایسی بھی موجود رہتی ہے  جو کسی بھی بہانے پاکستان کی قابلِ فخر، جرأتمند، بہادر اور محبِّ وطن مسلح افواج  کی توجّہ ان کے اصل (آئینی) فرائضِ منصبی اور پیشہ وارانہ ذمّہ داریوں سے  ہٹانے اور ان کو   سیاسی معاملات میں گھسیٹنے کی مذموم و مکروہ سازشوں میں مصروفِ عمل ہیں ،  ایسے عاقبت نا اندیش عناصر ہماری مسلح افواج کو متنازع بنا کر ، دراصل پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے عناصر کی ہر سطح پر سخت ترین  مذمّت اور حوصلہ شکنی پاکستان کے ہر محبّ وطن شہری کا فرض ہے، کیونکہ آج ہر پاکستانی اپنی مسلّح افواج پر فخر کرتا ہے اور پوری  پاکستانی قوم متحد  ہو کر ، دل و جان سے اپنی افواج  کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے خدا نخواستہ فوج نے سیاسی اقتدار پر غیر آئینی تسلّط جمانے کی کوشش کی تو قوم تقسیم ہو جائے گی،   عوام النّاس کی واضح اکثریت   اگرچہ کہ سیاسی قیادت کی کرپشن اور ناقص کارکردگی سے نالاں ضرور ہے  مگر ایسے کسی بھی غیر آئینےی عمل کی حمایت ہرگز نہیں کرے گی۔   ملک اس وقت نازک ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ اس وقت پوری پاکستانی  قوم کا متحد و منظم ہو کر متفقہ طور پر بدستور اپنی مسلّح افواج کی دل و جان سے حمایت جاری رکھنا انتہائی ضروری ہے





Tuesday, 18 August 2015

ہرطرح کی کرپشن کا مکمّل خاتمہ، کثیر الجہت قومی ترجیحات میں سرِ فہرست ہونا ضروری ہے۔

ہرطرح کی کرپشن کا مکمّل خاتمہ   کثیر الجہت قومی ترجیحات میں ۔سرِ فہرست ہونا ضروری ہے۔ 
اتحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں
آزادی ایک عظیم نعمت ہے اس کی قدر کریں، قدم بڑھائیں وطن کی تعمیر میں حصہ لیں! یہ وطن ہمارا ہے اس کی بنیادوں میں ہمارے آباء و اجداد کا لہو شامل ہے اور یہ انہی کی بے مثل قربانیوں کا ہی ثمر ہے، مگر افسوس کہ کرپشن کا دیمک اسکی جڑوں کو روز بروز کمزور سے کمزور تر اور کھوکھلا کرتا جا رہا ہے اس کا فوری ادارک، تدارک اور سدِّباب ناگزیر ہو چکا ہے۔
صرف مالی  کرپشن ہی نہیں، اختیارات کے غلط، ناجائز  وغیر قانونی  استعمال، فرض نا شناسی اور فرائض منصبی سے مجرمانہ غفلت، غذائی اجناس و روز مرّہ استعمال کی اشیاءِ خورد و نوش میں ملاوٹ، غیر معیاری اور مضرِ صحت اشیاء کی تیاری و فروخت،    اقربا پروری، استحقاق و میرٹ کےقتلِ عام، ،  ناجائز منافع خوری و ذخیرہ اندوزی، مال و اسباب کے لین دین اور ناپ تول میں بے ایمانی و بد دیانتی، حقوق العباد کو تلف کرنے، مذہب منافرت و فرقہ پرستی کو پھیلانے اور دین اسلام کی بنیادی تعلیمات اور صریح احکامات کے برعکس فرقہ پرستی پھلانے سمیت ہر طرح کی کرپشن بلاشبہ ایک معاشرتی ناسور ہے جس نے پورے ملک و معاشرے کی جڑیں کاٹ کر اسے کھوکھلا کردیا ہے اس لعنت کے خاتمے کے لئے معاشرے کے ہر فرد اور اسلامی جمہوریہءِ پاکستان کے ہر ایک شہری کو اپنا اپنا کردار پوری ذمّہ داری اور فرض شناسی کے ساتھ نبھانا ہو گا ورنہ ہمارے اجتماعی و انفرادی مسائل  کبھی حل نہیں ہو پائیں گے، تباہی و بربادی، تنزّلی و انحطاط، مظالم و نا انصافیاں اور حق تلفیاں اور غیر مساویانہ ناروا امتیازی سلوک ہم سب کا مقدّر بنے رہیں گے اور کرپٹ عناصر بدستور ہم پر مسلّط رہیں گے امن و استحکام، خوشحالی وترقی اور کامیابی و کامرانی کا خواب کبھی شرمندہءِ تعبیر نہیں ہونے پائے گا۔ آئندہ نسلیں بھی ہماری اس مجرمانہ غفلت کا شکار ہوتی رہیں گی۔ اب بھی وقت ہے! آؤ سب مل کر ہر سطح پر اور ہر قسم کی کرپشن کا قلع قمع کرنے کی منظم و مؤثر تحریک کا  آغاز کریں۔ قرآن و سنت پر مبنی مصطفوی نظام کا مکمل نفاذ ہی ہمارے ہر نوعیت کے تمام تر مسائل و مسائل کا مؤثر حل اور تمام تر حقوق کا محافظ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ  مجرمانہ ذہنیّت کے حامل عاقبت نا اندیش عناصر ہر پارٹی، گروہ، جماعت اور معاشرے  کے مختلف طبقات میں موجود ہو سکتے ہیں۔ ان کی ہر قسم کی منفی اور مجرمانہ سرگرمیوں کی نشان دہی اور ہر سطح پر حوصلہ شکنی و مذمّت نیز اصلاح کی کوشش کرنا، محبّ وطن شہری اور سچے و صالح مسلم کی حیثیت سے معاشرے کے ہر فرد ،بالخصوص علماءِ اسلام و مصلحین و مبلّغین کی انسانی، دینی و اسلامی ذمّہ داری بنتی ہے۔ ملزمان کے خلاف بلا تخحصیص و امتیاز، بغیر کسی تفریق کے بروقت مؤثر کاروائی کرتے ہوئے انہیں عبرت ناک، قرار واقعی سزایئں دلوانا اور ہر پاکستانی کے جان و مال اور عزّت و آبرو کو ایسے عناصر کی مجرمانہ کاورائیوں، شر انگیزیوں سے بہر صورت مکمّل تحفظ اور احساسِ تحفّظ فراہم کرنا حکومت، پارلیمنٹ اور اس کے ماتحت اداروں اور عدلیہ کی اوّلین ذمّہ داری بنتی ہے جس کی کماحقّہ بجا آوری سے غفلت و لا پرواہی یا نا اہلی و ناکامی انہیں اپنے مناصب پر برقرار رہنے کے جواز سے محروم کر دیتی ہے اور ایسی حکومت اپنا حقِّ حکمرانی کھو بیٹھتی ہے،  اسے اپنے ملک کے شہریوں سے محصولات کی ،وصولی کا کوئی اخلاقی، آئینی، قانونی انسانی، اسلامی، آئینی و قانونی حق باقی نہیں رہتا۔
اے کاش! پاکستان کے کروڑوں شہری اپنے انسانی، اسلامی، آئینی و قانونی حقوق کا شعور حاصل کرلیں اور اپنے بنیادی، جائز، انسانی، اسلامی، آئینی و قانونی، معاشی معاشرتی اور شہری حقوق و سہولیات کے حصول و تحفظ، محکومی و محرومی سے نجات، امن و انصاف، بہتر و معیاری تعلیمی و صحتِ عامّہ کی سہولیات سمیت  بنیادی انسانی ضروریات، ترقّی و خوشحالی کے حصول و تحفظ کی غرض سے، وسیع تر اور بہترین قومی و معاشرتی مفاد میں، متحد و منظم ہو جائیں، خود کو ان ظالم و بے رحم حکمرانوں کی رعایا اور عوام سمجھنے کے بجائے عوْام و خوّاص اور وی۔آئی۔پی، وی۔وی۔آئی۔پی کے کے چکر سے نکلیں، معاشرے میں   معزّز و معتبر سمجھے سمجھائے جانیوالے جعلی و ناقص اور فرسودہ معیارات کو بدلیں، فقط مال و زر، سونے، اثر و رسوخ، طاقت اور زمینداری و جاگیرداری و صنعت کاری و سرمایہ داری کو ہی معتبری کا پیمانہ و معیار نہ بنائیں بلکہ سیرت و کردار، اخلاقیات،  صلاحیت و قابلیت، اخلاص و سچائی اور کاردگی کو بھی دیکھیں اور پرکھیں۔
اس ملک کو اپنا ملک سمجھیں اور خود کو اس کے قومی وسائل میں مساوی طور پر جائز و آئینی طور پر حصّہ دار اور حقدار سمجھیں، اس عظیم وطن عزیز کو دو فیصد سے بھی کم غاصب و ظالم، بے حس و بے رحم اور رہزن عناصر کی ذاتی جاگیر و نجی ملکیت نہ مانیں، ان ناقص و نااہل، خود غرض، مفاد پرست، جرائم پیشہ، عاقبت نا اندیش، لوٹ مار کرنے والے رہنماؤں کے روپ میں نظر آنے والے رہزن بہروپیوں، بے حس و بے رحم عناصر کی چکنی چپڑی مکارانہ و عیارانہ چالوں کے فریب میں نہ آئیں انکی جھوٹی باتوں اور بے ،بنیاد جھوٹے وعدوں سے دھوکہ نہ کھائیں (جنہوں نے کہ گذشتہ طویل عرصے سے آج تک ملک کے 100فیصد قومی وسائل پر بالجبر اپنا ناجائز تسلط جما رکھا ہے) اور ان ایسے ہی آزمائے ہوئے بد دیانت  اور قومی وسائل کو لوٹنے والے کرپٹ عناصر سے  بار بار دھوکہ کھائیں نہ ہی اب مزید انہیں اپنا حقّ، حکمرانی سونپیں۔
اپنے عقل و شعور اور فہم فراست سے کام لیں اور اپنے عام لوگوں میں سے ایسے محبِّ وطن، صالح، سچے ہمدرد و خیرخواہ، مخلص، باصلاحیت، الله تعالٰی کا خوف دل میں جاگزیں رکھنے والے دیانتدار و ایمان دار لوگوں کو اپنا نمائندہ منتخب کر کے پارلیمنٹ میں بھیجیں تاکہ اصلاح کی کوئی امید بر آ سکے جس کی آس لگائے ہمارے آباء و اجداد قبروں میں جا سوئے ہیں۔ کم از کم ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ان کالے فرنگیوں سے بھی  اسی طرح نجات دلاتے جائیں جس طرح ہمارے آباء و اجداد نے گورے فرنگیوں  کی غلامی سے آزادی دلائی تھی اور اسلامی جمہوریہء پاکستان کا قیام ممکن اور حقیقت بنا کر دکھایا ہے۔
افسوس کہ ان کی بے انتہاء قربانیوں کے باوجود سازش کے تحت فرنگیوں کے ذھنی غلاموں نے اس آزادی کے ثمرات پاکستان کے عام شہریوں تک پہنچنے نہیں دیئے، گورے فرنگی کی غلامی سے نجات ملتے ہی اس کے وفادار، خدمت گذار اور نمک خوار کالے فرنگیوں نے اپنے مذموم عزائم پورے کرنے کی غرض و غایت سے اس نوزائیدہ مملکت کے قومی وسائل پر قابض ہو کر سازش کے تحت ہمیں اپنی رعایا بنا لیا اور شہری کی حیثیت جو ہمارے آئینی، قانونی، شرعی، انسانی، بنیادی، معاشی و معاشرتی جائز حقوق بنتے ہیں ان سے آج  تک ہمیں محروم کئے رکھا ہے اور ملک کے قومی وسائل کو یہ چند ہزار عناصر ہڑپ اور ہضم کر رہے ہیں۔ الله تعالٰی ہم پر رحم فرمائے اور ہمارے اندر بیداری کی لہر ابھارے! آمین۔ پاکستان زندہ باد! محروم و محکوم پاکستانی قوم  زندہ باد!


Thursday, 13 August 2015

محبِّ وطن پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کو، دل کی گہرائی سے، ملکی آزادی کی 68ویں سالگرہ کا دن بہت بہت مبارک ہو


تمام تر پیارے اور محبِّ وطن پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کو، دل کی گہرائی سے، ملکی آزادی کی 68ویں سالگرہ کا دن بہت بہت مبارک ہو۔
اس مسعود اور پر مسرّت موقع پر ، ہم وطنوں کے نام ایک درد مندانہ پیغام و عرضداشت۔
منجانب: پرویز اقبال آرائیں
تمام محبِّ وطن پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کو ملک کی آزادی کا جشن بہت بہت مبارک ہو! اللہ میرے ہموطنوں کو بھی حقیقی آزادی کی نعمت اور ثمرات عطا فرمائے۔ آمین!
یہ وطن ہمارا ہے کسی اور کا نہیں، بلا شبہ مجرمانہ ذہنیّت کے حامل عاقبت نا اندیش عناصر ہر پارٹی، گروہ، جماعت اور معاشرے کے مختلف طبقات میں ہو سکتے ہیں۔ ان کی ہر قسم کی منفی اور مجرمانہ سرگرمیوں کی نشان دہی اور ہر سطح پر حوصلہ شکنی و مذمّت  نیز اصلاح کی کوشش کرنا  ،  محبّ وطن شہری کی حیثیت سےمعاشرے کے ہر فرد ،بالخصوص علماءِ اسلام و مصلحین و مبلّغین کی انسانی، دینی و اسلامی ذمّہ داری بنتی ہے۔ ملزمان کے خلاف بلا تخصیص و امتیاز  بروقت مؤثر کاروائی کرتے ہوئے  اان کی مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کرنا،  عبرت ناک، قرار واقعی سزایئں دلوانا  اور ہر پاکستانی کے جان و مال اور عزّت و آبرو کو ایسے عناصر کی مجرمانہ کاورائیوں، شر انگیزیوں سے بہر صورت مکمّل تحفظ اور احساسِ تحفّظ فراہم کرنا حکومت، پارلیمنٹ اور اس کے ماتحت اداروں اورعدلیہ کی اوّلین زمّہ داری بنتی ہے جس کی کماحقّہ بجا آوری سے غفلت و لا پرواہی یا نا اہلی و ناکامی انہیں اپنے مناصب پر برقرار رہنے کے جواز سے محروم کرتی ہے اور ایسی حکومت اپنا حقِّ حکمرانی کھو بیٹھتی ہے،  اسے اپنے ملک کے شہریوں سے محصولات کی وصولی کا کوئی  انسانی، اسلامی، آئینی و قانونی حق باقی نہیں رہتا۔
جس طرح بعض نام نہاد مذہنی پیشواؤں نے اللہ تعالٰی اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ و اٰلہ و سلّم) کی نافرمانی کر کے مسلم امّۃ کو فرقہ فرقہ کر دیا، بعینہ ہمارے سیاسی رہنماؤں نے بھی پاکستانی قوم کو منتشر و متحارب گروہوں میں بانٹ کر رکھ دیا۔ اس طرح ایک طبقہ نے اللہ و رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ و اٰلہ و سلّم) کے ساتھ اپنا عہد توڑا اور ان کی نافرمانی کر کے امّۃِ مصطفوی میں تفرقہ ڈال دیا، اسےتقسیم در تقسیم کرکے تباہ و برباد کر دیاجبکہ دوسرے طبقہ نے، پاکستانی قوم کو مختلف و متعدد منتشر و متفرق لسانی و علاقائی گروہوں میں بانٹ کر، تحریک آزادی کے قائدین و مجاہدینِ اور شہداء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم کے ساتھ غدّاری کی، اور ان کی تمام تر بے مثل و بے دریغ قربانیوں کو رائیگاں کر دیا جن کے نتیجے میں، قائدِ اعظم محمّد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی ولولہ انگیز اور مخلصانہ قیادت میں ایک (پاکستانی ) قوم بنی تھی۔ ایک عظیم امّۃ، امّۃِ مسلمہ جو کہ جسدِ واحد کی طرح امّۃِ واحدہ تھی، دوسری غیور و جفاکش قوم جو کہ متحد و منظم تھی، ان دونوں کو عاقبت نا اندیش، مفاد پرست و خود غرض عناصر نے انتہائی بے رحمی اور بے خوفی سے، تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔
افسوس صد افسوس کہ اب "مسلم امّۃ" کا کوئی وجود باقی ہے نہ "پاکستانی قوم" کا اور ہم ہیں اب بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر آنکھیں کھولنے پر اب بھی آمادہ نہیں اور انہی عناصر کی اندھا دھند تقلید اور پیروی اب بھی مسلسل کرتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ کاش کہ اب بھی ہم ہوش و حواس، عقل و شعور اور فہم و فراست کی نعمت سے کام لے کر اصلاحِ احوال کی کوئی تدبیر کریں۔ کاش کہ  ہم  اب بھی سمجھ اور سنبھل جائیں اور  پاکستان کے کروڑوں شہری اپنے انسانی، اسلامی، آئینی و قانونی حقوق کا شعور حاصل کرلیں اور اپنے جائز ، انسانی، اسلامی، آئینی و قانونی حقوق  ، محکومی و محرومی سے نجات ، امن و انصاف، بہتر و معیاری تعلیمی و صحتِ عامّہ کی سہولیات سمیت  بنیادی انسانی ضروریات،   ترقّی و خوشحالی  کے حصول و تحفظ  کی غرض سے ، وسیع تر اور بہترین قومی و معاشرتی مفاد میں ،   متحد و منظم ہو جائیں، خود کو ان ظالم و بے رحم حکمرانوں کی رعایا اور عوام سمجھنے کے بجائے عوْام و خوّاص اور وی۔آئی۔پی، وی۔وی۔آئی۔پی کے کے چکر سے نکلیں، معاشرے میں معزّز و معتبر سمجھے سمجھائے جانیوالے معیار بدلیں،  فقط مال و سولے، اثر و رسوخ، طاقت اور زر و زمین کو ہی معتبری کا پیمانہ نہ بنائیں بلکہ کردار و اخلاق اور کاردگی و اخلاص کو بھی دیکھیں اور پرکھیں۔ اس ملک کو اپنا ملک سمجھیں  اور خود کو اس کے قومی وسائل میں مساوی طور پر جائز و آئینی طور پر حصّہ دار  اور حقدارسمجھیں، اس عظیم وطن عزیز کو  غاصب و ظالم، بے حس و بے رحم اور رہزن عناصرکی ذاتی جاگیر و نجی ملکیت نہ مانیں، ان ناقص و نااہل، خود غرض، مفاد پرست، جرائم پیشہ، عاقبت نا اندیش، لوٹ مار کرنے والے  رہزن قسم کے بے حس و بے رحم عناصر کی باتوں نہ آئیں (جنہوں نے کہ  ملک کے 100 فیصدقومی وسائل پر اپنا ناجائز تسلط جما رکھا ہے)  اور ان  ایسے ہی آزمائے ہوئے بد دیانت  اور قومی وسائل کو لوٹنے والے کرپٹ عناصرسے  بار بار دھوکہ کھائیں نہ ہی اب مزید انہیں اپنا حقّ،حکمرانی سونپیں۔
اپنے عقل و شعور اور فہم فراست سے کام لیں اور  ایسے محبِّ وطن، صالح، سچے ہمدرد و خیرخواہ، مخلص، باصلاحیت، اللہ تعالٰی کا خود رکھنے والے  دیانتدار و ایمان دار لوگوں کو اپنا نمائندہ منتخب کر کے پالیمنٹ میں بھیجیں تاکہ اصلاح کی کوئی امید بر آ سکے جس کی آس لگائے ہمارے آباء و اجداد قبروں میں جا سوئے۔ کم از کم ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ان کالے فرنگیوں سے بھی  اسی طرح نجات دلاتے جائیں جس طرح ہمارے آباء و اجداد نے گورے فرنگیوں  کی غلامی سے آزادی دلائی تھی  اور اسلامی جمہوریہء پاکستان کا قیام ممکن اور حقیقت بنایا۔
افسوس کہ اس  آزادی کے ثمرات پاکستان کے عام شہریوں تک پہنچنے نہیں دیئے گئے، گورے فرنگی کی غلامی سے نجات ملتے ہی اس کے وفادار ، خدمت  گذار اور نمک خوار کالے فرنگیوں نے  اپنے مذموم عزائم پورے کرنے کی غرض و غایت سے اس نوزائیدہ مملکت کے قومی وسائل پر قابض ہو کر سازش کے تحت ہمیں اپنی رعایا بنا لیا اور شہری کی حیثیت جو ہمارے حقوق بنتے ہیں ان سے آج  تک ہمیں محروم کئے رکھا ہے اورملک کے  قومی وسائل کو یہ چند ہزار عناصر ہڑپ اور ہضم کر رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم حقیقی آزادی کو حاصل کر کے اس کے ثمرات و فوائد سے مستفید و مستفیض ہو سکیں۔آمین۔


واقعہء قصور کے ہم سب ہی قصوروار ہیں، اپنی بوئی ہوئی فصل تو خود کاٹنی ہی پڑے گی

واقعہء قصور کے ہم سب ہی قصوروار ہیں،  اپنی بوئی ہوئی فصل تو خود کاٹنی ہی پڑے گی!
(تحریر: پرویز اقبال آرائیں)
کرتا تھا تو کیوں رہا‘ اب کاہے پچھتائے
بووے پیڑ ببول کا‘ آم کہاں سے آئے
اردو ترجمہ: مندے کام نہ چھوڑے تونے اب کاہے پچھتائے
کیکر کے جب پیڑ لگائے آم کہاں سے کھائے
پنجابی: مندے کموں باز نہ آیا‘ ہن ایویں پچھتائے
کیکر دے جد بوٹے لائے‘ امب کتھوں ہن کھاویں
مترجم کو یہاں بابا فرید کا ایک اشلوک یاد آ گیا۔ اس کا اردو ترجمہ یوں کیا    ؎
پیڑ لگائے کیکر کا اور آس انگور کی باندھے
خود ہی کات کے اون کی ڈھیری پگلا ریشم ڈھونڈے
قصور کے واقعے پر دل دہلا دینے والی اس چشم کشا رپورٹ کو پڑھ کر  یہ بندہء ناچیز دنگ رہ گیا، حقائق کو جان کر تو جیسے  سکتہ ہی طاری ہو گیا،  دل خون کے آنسو رونے لگا،  رونگٹے کھڑے ہو گئے، شرم  سےسر جھک گیا،  ڈوب مر نے کی تمنّا دل میں مچلنے لگی، ملک و معاشرے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ سے بھی گھن سی  آنے لگی،  ایسا لگا کہ جیسے ہم سب  پاکستانی بھی  اس انسانیت سوز واقعے اور اس جیسے نہ جانے کتنے ہی دیگر  اندوہ ناک واقعات کے ذمہ دار  ہوں، رحمٰن کے نہیں شیطان کے بندے، اسی کے پجاری و پیروکار بن کر  دینی احکامات و تعلیمات، انسانی   اخلاقیات اقدار کو فراموش کر کے بالکل بے حس، بے حیاء و بے غیرت  اور وحشی درندےبن چکے ہوں،  اسلامی جمہوریہء پاکستان کا مسلم معاشرہ جیسے پستی، تباہی و بربادی کی  اس آخری  اور حد وں  کو چھو رہا ہوکہ  اس وقت کرّہءارض پر ایسی کسی نظیر کی تو بات ہی کیا،قبل از اسلام کے دورِ جاہلیت میں بھی اس کوئی مثال ڈھونڈنا مشکل ہو۔۔۔۔ ورنہ ایسا کیونکر ممکن ہو سکتا تھا جو فی زمانہ اس مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہء پاکستان کے مسلم معاشرے میں ہو رہا ہے اور جس کی کہ ایک ہلکی سی جھلک واقعہء قصور میں نظر آتی ہے ؟؟؟
ظلم و بربریت کا ایسا بہیمانہ ، بے رحمانہ و وحشیانہ گندہ ترین مکروہ  و غلیظ ترین کھیل اس پاک دھرتی پر  کھل کر کھیلا جا رہا رہا ،  معاشرے میں ہر طرف بے چینی ہے، نا انصافیوں حق تلفیوں، لوٹ مار، ناجائز منافع خوری، رشوت ستانی کا  بازار گرم ہے۔ جان بچانے والی ادویات اور غذائی اجناس تک ہر چیز میں ملاوٹ، ناقص ناپ تول ، عدل و انصاف اور امن و احساسِ تحفظ ناپید، کمزور بیچارہ بے یارومددگار اور طاقتور کے  ظلم کا شکار ہے۔  کہیں سے انصاف کی امید نہ ہونے کے سبب سے واقعہء قصور کے سینکڑوں اور ان جیسے اور نہ جانے کتنے مظلوم و بے کس ہر وحشیانہ بربریت کا شکار ہو کر بھی چپ رہنے پر مجبورہے۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشرتی بگاڑ کے مختلف پہلوؤں،  اصل محرکات و اسباب اور ان کے در پردہ عوامل پر تحقیق، گہرے غور و خوض، پھر ان کے تدارک، سدّباب ،  ازالے اور تلافی کے بغیر معاشرتی اصلاح کا خواب شرمندہء تعبیر نہیں ہو سکتا، معاشرے کے ہر طبقے اور حکومت کو کامل اخلاصِ قلبی اورصدقِ نیت کے ساتھ پوری فرض شناسی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا کیوں کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، انتہائی مایوس کن اور دردناک صورتِ حال ہے،ہمہ جہت کوششوں کی ضرورت ہے۔ کسی بھی طبقے نے اپنی ذمّہ داریوں کو کما حقہ نہیں نبھایا، سب ہی نے لا پرواہی اور کوتاہی سے کام لیا ہے بلکہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، تمام اچھے اقدار اور اخلاقیات کو اپنی اپنی مطلب پرستی،مفاد پرستی، مخصوص ناجائز مفادات، ذاتی اغراض و مقاصد اور مذموم عزائم کی بھینٹ چڑھا دیا ھے۔ جس کا جتنا بس چلا ہے اس نے کوئی رعایت نہیں برتی۔ اب تو ایک منظم، مؤثر، مربوط اور فعّال تحریک کے نتیجے میں ہی اصلاح کا کوئی پہلو نکل سکتا ہے جس میں علماء و امراء ، الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا، اساتذہء کرام سمیت معاشرے کے ہر ایک طبقے او ادارے کو اپنا اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنے پر آمادہ کیا جانا بھی ضروری ہے۔ سب سے اہم کردار بہرحال ریاست اور اس کے ماتحت اداروں  اور علماء کرام کو ہی ادا کرنا ہے۔ وسیع تر اور بہترین قومی و ملّی مفاد میں مؤثر اقدامات کا اب بھی وقت ہے۔ کاش کہ ہم اب بھی سنبھل جائیں اور صالح مسلمان اور اپنی ریاست اسلامی جمہوریہء پاکستان کے ذمّہ دار اور بہتر شہری بن سکیں۔ عوام کو حقیقی معنٰی میں آزادی کی نعمت میسّر آسکے جو کہ ان کا بنیادی انسانی حق ہے یعنی معاشی، معاشرتی انصاف و مساوات انسانی و اخوّۃِ اسلامی، امن و عدل، حصولِ تعلیم اور علاج و معالجے کے یکساں و مساوی مواقع،احساسِ تحفّظ، وغیرہم جو کہ اللہ کے قانون کے نفاذ کے بغیر ناممکن نہیں تو بھی مشکل ضرور ہے۔ اسوقت جو حالات درپیش ہیں ان کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو صورتِ حال کی عکاسی کچھ یوں ہوتی ہےکہ۔۔۔
عاقبت نا اندیش فرقہ پرست علماء سوء  اور نام نہاد مذہبی پیشواء ، قرآن اور رسول صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلّم  کی سنّۃ (مشہور متواتر، صحیح اور متفق علیہ احادیث مبارکہ) اور اسوۃ الحسنہ کو پسِ پشت ڈال کر اپنے اپنے فرقہ کے خود ساختہ انسانی افکار و نظریات ، احکامات و تعلیمات کے فروغ اور انہی کے پرچار کو اپنی اوّلین ترجیح بنا کر اخوّۃِ اسلامی کے بجائے مذہبی منافرت،  معاشرتی انتشار و افتراق، مذہبی تعصبات، فرقہ پرستانہ فسادات، اپنے فرقے کے  نظریات و تصوّرات کےغلبے کی جدّ وجہد کے لئے مذہبی دہشت گردی کی تعلیم و تربیت میں مست رہے، مسلم  امراء نے ہر جائز و ناجائز طریقے سے اپنے اپنے مال و اسباب میں اضافہ کرنے کی جدّوجہد کو ہی  اپنا مقصدِ حیات  جانا، حکمرانوں نے حرام و حلال کی پرواہ کئے بغیر مال بنانے، قومی خزانے کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹ مار مچانے کو ہی قومی خدمت جانا اور اپنے اپنے فرائض منصبی سے مجرمانہ غفلت کے مرتکب، مفاد پرست، خود غرض، عاقبت نا اندیش لٹیروں اور رہزن عناصر  کو کو اپنا  اپنا رہبر و راہنماء اور بڑے لوگ مانا انہی کی  باتوں، تعلیمات اور اقتداء کو  ہم سن نے بھی صحیح اور درست جانا، اسی روش کے لازمی و منطقی نتیجے میں تو آخر کار ایسے ہی وقت کو ہم پر ضرورہی آنا تھا ، چاہئے کہ کم از کم اب تو ہم ہوش  کے ساتھ میدانِ عمل میں آئیں،  اپنے اپنے حقوق ق فرائض اور ذمّہ داریوں کو صحیح طور پر نبھائیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کاپورا پورا خیا ل رکھیں اور اس میں توازن قائم کریں، عادی جرائم پیشہ عناصر  اور  انکی پشت پناہی ،  پرپرستی، حوصلہ افزائی کرنے والے  ان  کے آقاؤں کو جو کہ ملک و معاشرے کے اصل مجرم ہیں  ان سب کو مار بھگائیں ۔ فرقوں ، جماعتوں، مسلکوں کی وفاداریوں پر رسول اللہ  صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلّم   کی اطاعت و اتباع کو اپنی ترجیح بنائیں۔ قرآن اور رسول صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلّم  کی سنّۃ (مشہور متواتر، صحیح اور متفق علیہ احادیث مبارکہ) اور اسوۃ الحسنہ کی پیروی میں ایک امّۃ بن جائیں، وظنِ عزیز میں عدل و انصاف ، ترقی و خوشحالی،  ان و استحکام، مساوات اور اخوّۃِ اسلامی کو بہرحال یقینی بنائیں، طاقت وروں کے ظلم و ستم سے مظلوموں کی جان چھڑائیں، نا انصافیوں اور حق تلفیوں کے آگے ڈھال بن جائیں، امدادِ باہمی اور بقائے باہمی کا اصول اپنائیں ، امن و محبّت  کوواپس لائیں۔ آئین کی بادستی اور قانون کی عملداری ، مساوی سلوک اور عدل و انصاف ، معاشی و معاشرتی، امن و سلامتی، احساسِ تحفّظ  اور اپنےآئینی و قانونی حقوق کے حصول و تحفّظ کو بہ ہر صورت یقینی بنائیں ۔ آپس میں متحد ہر کر بحیثیت پاکستانی ایک قوم اور بحیثیت مسلمان ایک امّۃ بن جائیں، اتحاد و اخوّۃ کےکی طاقت  کی طاقت و قوّۃ کے ذریعے ہر ظلم و زیادتی، نا انصافی اور حق تلفی سے چھٹکارا پائیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سدھر جائیں  ورنہ اپنی اپنی باری آنے کا انتظار فرمائیں، جو کچھ ظلم و ستم  آج دوسروں کے ساتھ ہوا  ہے (للہ نہ کرے )کل کو  ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے ۔

 واقعہء قصور کے ہم سب ہی قصوروار ہیں،  اپنی بوئی ہوئی فصل تو خود ہی کاٹنی پڑے گی، ہم میں سے کوئی بھی بری الذِّمہ نہیں، کیونکہ اصل مجرموں، ان کےسرپرست بااثر حکومتی ، سرکاری یا   دیگر عناصر ، مجرمانہ غفلت کے مرتکب پولیس و سول حکام کے ساتھ پورا معاشرہ  بھی اس واقعہ قصور کا قصور وار ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی اصلاح کی فکر لیں ورنہ ایسے مظالم برھتے  ہی جائیں گے۔ ان کی روک تھام ہمیں سب کو مل جل کر ہی کرنی ہو گی۔ آؤ آؤ اب بھی وقت ہے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر شاید ہاتھ نہیں آئے گا۔