Friday, 4 September 2015

پچاسویں یومِ دفاعِ پاکستان کے موقع پرپیغام

بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
پچاسویں یومِ دفاعِ پاکستان  کے موقع پرپیغام
تحریر: پرویز اقبال آرائیں
وطن کی ناموس اور حُرمت پر کٹ مرنے کا جذبہ اور سلیقہ عساکرِ پاکستان کا منفرد اعجاز اور بیش قیمت سرمایہ ہے۔یہ سلیقہءجانثاری پاکستانی فوج کے ہر سپاہی کے خمیر میں شامل ہے اور جذبہءشہادت اِسکا وہ ہتھیار ہے جسکا دشمن کے پاس کوئی توڑ موجود نہیں۔ یہ ا س فوج کا سپاہی ہے جو اپنے اُصولی موقف ،نظریہ ءحیات اور قومی وقار کی خاطر ہر آسائش ،مال و دولت حتیٰ کہ جان تک کی قربانی دینا جانتی ہے۔قیامِ پاکستان کے 18سال بعد ، آج سے ٹھیک پچاس سال پہلے چھ ستمبر 1965 کو ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان نے سارے بین ا لاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھ کر بین الاقوامی سر حد عبور کیا اور لا ہور سیکٹر پر یلغار کر دی۔ اچانک پاکستانی قوم کو پتہ چلا کہ ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کیا ہے اور اب تھو ڑی دیر میں پاکستان کے صدر فیلڈ ماشل محمد ایوب خان قوم سے خطاب کرنے والے ہیں، واضح رہے کہ اس زمانے میں ریڈیو بھی کسی کسی کے پاس ہوا کرتاتھا ، سب لوگ ریڈیو پر صدر کا خطاب سننے کےلئے جمع ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں ریڈیو پرقومی ترانہ نشر ہوا اور اس کے فورا بعد صدر ایوب خان کی گرجدار آواز گو نجی ان کی تقریر کے کچھ جملے آج بھی ہمارے بزرگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں انہوں نے کہا ’’ میرے عزیز ہم وطنو ! بھارت نے اعلانِ جنگ کئے  بغیر     بین ا لاقوامی سر حد عبور کرتے ہوئے ہم پر حملہ کیا ہے، اسے معلوم نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے، میرے جوانو ! لا ا لہ الاﷲ کا ورد کرتے ہو ئے دشمن پر ٹوٹ پڑو ‘‘ایوب خان کی تقریر نے سامعین میں ایک عجیب سا ولولہ پیدا کر دیا۔پوری قوم  نعرہءِ تکبیر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے، وطن کی  حفا ظت کے لئے تن من دھن کی قربا نی کے لئے اٹھ کھڑی ہو ئی۔ستمبر 1965ءکو افواجِ پاکستان اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری میں وطنِ عزیز کے لئے اِس وقت دفاعی حصار بن گئیں جب بھارت نے لاہور کے نواح میں تین مقامات پر پاکستانی سرحدوں کو عبور کرکے بھرپور حملہ کر دیا ۔پاکستان کے غیور عوام اور فوج نے مل کر اِس چیلنج کو قبول کیا اور وطنِ عزیز کی مقدس زمین کو بھارت کے ناپاک قدموں سے پاک کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔
بھارتی فوج نے سترہ دنوں کے اندر تیرہ بڑے حملے کئے لیکن وہ لاہور کے اندر داخل نہ ہو سکی۔ ۷ ستمبر 1965ءکو دشمن نے اپنی کاروائی کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے راولپنڈی،کراچی،سرگودھا،ڈھاکہ،چٹا گانگ،جیسور اور رنگ پور پر فضائی حملے کئے جن کا نشانہ نہتے شہری بنے۔دوسری جانب پاک فضائیہ نے بھی دُشمن کی اِس حرکت پر اِسے پوری سزا دی۔سری نگر کے ہوائی اڈے پر کامیاب حملے کئے گئے اور مختلف فضائی حملوں میں بھارت کے31طیارے تباہ کر دئیے گئے۔بھارت کے مشرقی حصوں پر بھی حملے کر کے پاکستانی فضائیہ نے بھارت کے 11کینبرا اور 4دوسرے جہاز زمین پر تباہ کر دئیے۔۸ ستمبر 1965کو بھارت نے اپنی تباہی کی جانب ایک اور قدم اُٹھاتے ہوئے پاکستان کے مغربی حصے میں دو اور محاز کھول دئیے۔
سیالکوٹ اور حیدرآبادکے نزدیک دو مقامات پر اس نی ہماری سرحدوں مےں گھسنے کی کوشش کی ۔سیالکوٹ کے علاقہ میں زبر دست جوابی کاروائی میں پاکستانی فوج نے دُشمن کے 25ٹینک تباہ کر دئیے،5فیلڈ گنیں قبضہ میں لے کر بہت سارے فوجی قیدی بھی بنائے گئے ۔چھمب کے علاقہ میں بھی بھارتی فوج کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا ۔اسی روز پاک فضائیہ کے بہادر جوانوں نے ہلواڑہ اور جودھ پور کے ہوائی اڈوں میں نیچی پروازیں کر کے رَن ویز کو سخت نقصان پہنچانے کے علاوہ دُشمن کے بہت سے طیارے بھی تباہ کر دئیے۔بھارت نے 20کینبرا طیاری بھیج کر سرگودھا کے ہوائی اڈے کو پھر نشانہ بنانے کی کوشش کی لیکن پاک فضائیہ نے انکی کوئی پیش نہ چلنے دی ۔منوڑہ کراچی پر بھی اِسی روز حملے کے جواب میں پاک بحریہ نے دُشمن کے تین طیارے تباہ کر دئیے۔
۹ ستمبر 1965ءپاک فوج نے قصور اور واہگہ کے سیکٹروں میں زبردست جنگ کے بعد دُشمن کی فوجوں کو پوری طرح پیچھے ہٹا دیا اور بھارت کی بھاگتی ہوئی فوج بہت سا جنگی سامان بھی چھوڑ گئی۔ جس میں توپیں ،گاڑیاں اور گولہ بارود بھی شامل تھا ۔ پاک فضائیہ نے پٹھانکوٹ اور جودھپور کے ہوائی مرکزوں پر اپنے حملے جاری رکھے اور رَن ویز کے علاوہ فوجی اہمیت کے دوسر ے ٹھکانوں کو زبردست نقصان پہنچایا ۔۰۱ ستمبر 1965ءپاک فوج نے جنگ کا پانسہ پلٹتے ہوئے دشمن کے علاقے کے کافی اندر جا کر کئی چوکیوں پر قبضہ کر لیا ۔واہگہ محاز پر بھی دشمن کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔بیدیاں اور کھیم کرن سیکٹر میں دشمن پر دبا
بڑھتا جا رہا تھا۔ سیالکوٹ محاز پر دشمن کے سات ٹینک تباہ کر دئیے گئے ۔جوڑیاں کے علاقہ میں آزاد کشمیر کی فوجوں نے دو اہم چوکیوں پر قبضہ بھی کر لیا۔
۱۱ ستمبر 1965ءپاک فوج نے بھارتی علاقہ کھیم کرن پر قبضہ کر لیا اور پیش قدمی اِس مقام سے آگے جارہی تھی ۔اِس روز سیالکوٹ محاز پر سخت لڑائی جاری تھی جس میں دشمن کے 36ٹینک تباہ کر دئے گئے ۔اکھنوڑ کے علاقہ میں بھی بھارت کا کافی نقصان ہو رہا تھا ۔جبکہ دیوا کے شمال میں بھی ایک اور چوکی پر قبضہ کر لیا گیا اور پوزیشن مستحکم کر لی گئی ۔ہمارے طیاروں نے مغربی بنگال میں باغ ڈوگر کے ہوائی اڈے پر حملہ کر کے ایک ہنٹر اور ایک ویمپائر طیارہ اور بہت سے فوجی ٹھکانے بھی تباہ کر دئیے۔سیالکوٹ کے علاقہ میں ہمارے طیاروں نے دُشمن کی بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ لاہور اور ہلواڑہ میں بھی اِس روز دُشمن کو کافی نقصان پہنچا۔۲۱ستمبر 1965ءکو پاکستان کی بہادر فوج نے خونریز جنگ کے بعد دشمن کے ٹینکوں کے حملے کو پسپا کر دیا اور دشمن کی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا۔اسکے مزید 45ٹینک تباہ ہو گئے۔کھیم کے قریب358 بھارتی سپاہیوں نے ہماری فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ان کا تعلق چوتھی رجمنٹ سے تھا اور ان میں بیشتر سکھ تھے ۔
سلیمانکی کے نزدیک بھی ہماری فوج نے دشمن کی بہت سی چوکیوں پر قبضہ کر لیا ۔یہاں پاک فضائیہ نے اٹھائیس ٹینک اور 123بھاری گاڑیاں تباہ کر کے بری فوج کا ہاتھ بٹایا ۔۳۱ستمبر 1965ءہماری فوجوں نے زمین پر اور ہوا میں دشمن کے 9طیارے اور 47ٹینک تباہ کر دئیے۔بھارتی فضائیہ کے دو مرکزوں میں آگ لگا دی اور دُشمن کی بہت سی چوکیوں پر قبضہ کر لیا ۔لاہور محاز پر پاکستانی فوج کا دبا
مسلسل بڑہ رہا تھا ۔سیالکوٹ جموں سیکٹر میں دشمن کے کئی حملوں کو پسپا کر دیا گیا اور انہیں پیچھے ہٹا کر دم لیا ۔میر پور خاص ریلوے لائن پر بھارتی علاقہ میں ایک ریلوے اسٹیشن مونا با پر بھی قبضہ کر لیا گیا ۔
ہماری فضائیہ نے امرتسر کے مضافاتی علاقوں کے علاوہ پٹھانکوٹ،آدم پور ،جودھپور اور آدم نگر کے ہوائی مرکزوں میں فوجی ٹھکانوں کو خاکستر کر دیا۔ہر آنے والا دِن بھارتی فوج کو تمام محازوں پر زلیل و خوار کر رہا تھا ۔6ستمبر1965ءسے لے کر 23ستمبر1965ءتک 17دن جاری رہنے والی اِس جنگ میں بھارتی فوج کی تاریخی پٹائی ہوئی ۔آج ۳۲ ستمبر 1965ءکی صبح تھی جب سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق سارے محازوں پر جنگ بند ہو گئی ۔جنگ بندی ۲۲ ستمبر 1965ءکو دن بارہ بجے ہونی تھی ۔مگر بھارت نے پندرہ گھنٹے کی مہلت لے لی ۔اسے خوش فہمی تھی کہ فائر بندی کے فیصلہ کے بعد پاکستانی فوج غافل ہو جائے گی چنانچہ اس نے اس مہلت سے نا جائز فائدہ اُٹھانا چاہا اور تین بجے صبح سے پہلے اپنی مخصوص مکا رانہ زہنیت کا ثبوت دیا ۔اس نے بعض محازوں پر پیش قدمی کی کوشش کے علاوہ ہماری بحریہ پر بھی وار کرنے کی کوشش کی ۔کھلے سمندر میں بھارت کے جنگی جہازوں نے ہماری بحریہ کے ایک یونٹ پر حملہ کر دیا ۔ہماری یونٹ نے جوابی کاروائی کرکے دشمن کا ایک چھوٹا جنگی جہاز غرق کر دیا اور ہماری بحریہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکا۔واہگہ میں بھی بھارتی فوجوں نے قدم بڑھانے کی کوشش کی لیکن ہماری بہادر فوج نے انکا حلیہ بگاڑ دیا۔اِس جنگ میں ہمارے بھی بہت سارے بہادر جوانوں نے جان کے نذرانے دئیے۔
6ستمبریومِ دفاعِ پاکستان کے طور پر ہر سال اِن شہیدوں اور غازیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے منایا جا تا ہے جنہوں نے وطنِ عزیز کی سالمیت اور یکجہتی کے تحفظ کے لئے عظیم قربانیاںدیں ۔یومِ دفاعِ پاکستان اس عہد کی تجدید کا دن بھی ہے کہ اگر ہم ایمان ،اتحاد اور نظم جیسی اعلیٰ خصوصیات اپنے اندر سمو لیں جو بانیءپاکستان قائد اعظم کے رہنما اصول تھے تو کوئی بھی جارح ہمارے ملک کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔6ستمبر 1965ءوہ دن ہے جب عددی برتری کے زعم میں مبتلا ہمارے دشمن نے پاکستان کو محکوم بنانے کی کوشش کی اور پوری دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ پاکستان کے عوام اور افواج دشمن کے عزائم کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور اسکے منصوبے خاک میں ملا دئیے۔
ہماری طاقت عددی برتری میں نہیں بلکہ ایمان کی پختگی میں تھی ۔1965ءکے بعد ہم طویل سفر طے کر چکے ہیںاور اب ہمارا دشمن ہمارے ساتھ جنگ لڑنے کی بجائے عوام اور افواجِ پاکستان کے مابین نفرتیں پھیلانے کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے ۔لیکن ہماری قوم کو دشمن کے اِس پروپیگنڈے کا بھی منہ تور جواب دینا ہو گا ۔یاد رکھئے کہ قوم کو ملک کی سالمیت ،حفاظت اور وقار کے لئے بیش بہا قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔وسائل کی کمی کے باوجود قوم افواجِ پاکستان کی جنگی اہلیت اور حربی ضروریات کو پورا کر رہی ہے۔ دشمن کے بزدلانہ ہتھکنڈوں کو دیکھ کر آج یومِ دفاع کے موقع پر جنگِ ستمبر کے اُنہی جذبوں اور ولولوں کی یادیں تازہ ہو گئی ہیں ۔آئیے آج یہ عہد کریں کہ ہم سب مل کر سرحدوں کے پاسبانوں کا ہر آڑے وقت میں ساتھ دیں گے اور دشمن کے ہر پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیں گے۔
قوموں کی تاریخ میں کچھ دن ایسے آ تے ہیں جو عام دنوں کی نسبت بڑی قربانی مانگتے ہیں۔ایسے دن ماٗؤں سے ان کے جگر گو شے،اور بو ڑھے باپوں سے ان کی زندگی کا سہا را  اپنے پیارے وطن پرنثار کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔قربانی کی لا زوال داستانیں رقم ہو تی ہیں، سروں پر کفن باندھ کر سرفروشانِ وطن رزم گاہِ حق و باطل کا رخ کرتے ہیں، کچھ جامِ شہادت نوش کرکے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غا زی بن کر سر خرو ہو جاتے ہیں۔تب جا کر کہیں وطن اپنی آزادی، وقار اور علیحدہ تشخص برقرار رکھنے میں کا میاب ہو تے ہیں۔ستمبر 1965کی جنگ میں ایسا ہی ہوا۔ورنہ بھا رت کا تو خیال تھا کہ پاکستان پر ہم پانچ دنوں میں قبضہ کر لیں گے۔ لا ہور پر حملہ کرنے والے بھارتی جر نیل نے ریڈیو پر اعلان کرکے یہ دعو یٰ کیا تھا کہ وہ صبح کا نا شتہ لاہور کے شالا مار با غ میں کرینگے مگر انہیں اندازا نہیں تھا کہ شیر سویا ہوا بھی ہو ، تب بھی شیر ، شیر ہو تا ہے۔افواجِ پاکستان اور عوامِ پاکستان نے مل کر دیوانہ وار دشمن کا مقابلہ کیا۔ایک روز ہمارے گا وں میں افواہ پھیلی کہ سامنے تین کلو میٹر دور پہاڑ پر انڈیا کے کمانڈو ز اترے ہیں، بس پھر کیا تھا، کوئی بندوق لیکر ،کو ئی کلہا ڑی لے کر اور میرا جیسا نو جوان بچہ ہا تھ میں لا ٹھی لے کر پہاڑ کی طرف دوڑنے لگے۔ ایک عجیب جوش تھا، ایک عجیب ولولہ تھا، جسے آج بھی یا د کرتا ہو ں تو میرے رگوں میں خون کی گردش تیز ہو جا تی ہے۔ عوام اور افواجِ پاکستان کے جوشِ ایمانی نے ہندو بنئے کے ارادوں کو خاک میں ملا دیا۔
طاقت کے نشے سے چور بھارت پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹا نے کے لئے آ یا تھا مگر ناکامی کا بد نما داغ ہمیشہ کے لئے اپنے سینے پر سجا کر چلا گیا۔افواجِ پاکستان نے چھ ستمبر 1965کو بہادری،جرات اور قربانی کی ایسی ایسی بے مثال مثالیں قائم کیں ،کہ پوری دنیا انگشت بدانداں ہو گئی۔
آج ہم پچاسواں یومِ دفاع جن حالات میں منا رہے ہیں ۔وہ یقینا صرف افسوسناک ہی نہیں ، تشوشناک بھی ہیں ۔ان حالات میں ہمار ا دل خون کے آ نسو رو رہا ہے۔ہمارے مشرقی اور مغربی سرحدوں پر دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے۔اندریں حالات ہم اپنے اربابِ اختیار اور دوسرے سیاسی راہنما وں سے جن کا تعلق خواہ کسی بھی پا رٹی سے ہو، اپیل کرتے ہیں کہ خدا کے لئے، آج یومِ دفاع پر عہد کریں کہ اپنی قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیں گے اور پوری دیانتداری اور خلوصِ دل سے لوگوں کے حقوق اور عدل و انصاف کا سو چیں گے۔ہماری دعا ہے کہ اگلے یومِ دفاع پر پاکستان پہلے سے زیادہ محفوظ اور متحد ہو!
قوم و ملک کے بہترین اور وسیع تر مفاد میں مؤثرآپریشن کلین اپ کر کے ، مذہبی کرپشن سمیت ہر طرح کی کرپشن کی جڑیں کاٹنا انہائی ضروری ہے! بلاشبہ کرپشن ایک معاشرتی ناسور ہے، اس حقیقت سے سرِ مو انحراف بھی سورج کی روشنی کا انکار کرنے کے مترادف ہے کہ ہر طرح کے تمام تر جرائم، کرپشن کی کوکھ سے جنم لیتے اور اسی کے سائے تلے پروان چڑھتے ہیں، جبکہ کرپشن کی بنیادی وجہ دین سے دوری ، راہِ ھدایت "صراطِ مستقیم "سے بھٹک جانا ہے اور اس گمراہی و بے راہ روی کا اصل سبب مذہبی کرپشن ( فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت) ہے اور اس فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت کا باعث نام نہاد مذہبی پیشوا ہیں جنہوں نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل، ذاتی اغراض و مقاصد، مالی و مادی منفعت، معاشی، معاشرتی، سیاسی مقاصد کے حصول و تحفظ کی خاطر، اپنی اپنی پسند کے من گھڑت اور خود ساختہ برانڈیڈ اسلامی مذاہب متعارف کروا کے لوگوں کو اصل دینِ اسلام (قرآن و سنّۃ، اسوۃ الحسنہ اور صحابہءِ کرام کے طرزِ عمل سے بیگانہ کر دیا ہے اوردینِ اسلام اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی اطاعت و اتباع سے ہٹا کران کی تعلیمات و احکامات کے برعکس اپنے اپنے فرقوں کے اکابرین کی پیروی پر لگا رکھا ہے، چنانچہ سب سے پہلے فرقہ پرستی کی جڑیں کاٹنے، بیخ کنی اور اس بدترین مذہبی کرپشن کا مکمل سدِّ باب کرنے کیلئے مؤثر آپریشن کلین اپ کرنے کی فوری اور اژّد ترین ضرورت ہے۔ اس کے بغیر دیگر اقسام کی کرپشن کے مؤثر تدارک اوراس پر قابو پانے سمیت کسی بھی قسم کی اصلاح احوال کا خواب دیکھنا بالکل بےسود و عبث ہے. ہرظالم اور ظلم، ناانصافی اور حق تلفی نیز ہرطرح کی مذہبی و دیگر اقسام کی کرپشن کے خلاف حق اور سچ کی آواز بلند کرنا جہاد جبکہ خاموشی بزدلی، بے ایمانی و بد دیانتی، بےحسی و منافقت ہے جو ان سنگین ترین جرائم کی بیخ کنی کے بجائے ان میں اضافے، حوصلہ افزائی و معاونت کرنے کے مترادف قومی و معاشرتی جرم، گناہِ عظیم ہے، اب تک ہم سب بھی اس مجرمانہ غفلت کے مرتکب رہے ہیں لیکن اب بہت ضروری ہے کہ قوم و ملک کے وسیع تر و بہترین مفاد میں ، ہر طرح کی کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ہر ادارہ اپنا اپنا اور ہم سب اپنا اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ ہر پاکستانی کو اس کے جائز، آئینی و قانونی اور بنیادی و انسانی حقوق کی مساویانہ طور پر فراہمی نیز حصول و تحفظ کو بہر صورت یقینی بنایا ئے۔ اسلامی دفعات و شقوں اور شہریوں کے بنیادی و انسانی حقوق سے متعلقہ دفعات اور شقوں سمیت ، پورے کے پورے آئینِ پاکستان کو مکمّل طور پر اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کیا جائے۔ قوم و ملک کے بہترین اور وسیع تر مفاد میں فوج سمیت تمام ادارے ، محکمے اور معاشرے کے تمام طبقات اپنے اپنے آئینی دائرہءِ کار کے اندر رہتے ہوئے پوری فرض شناسی، ایمانداری، دیانتداری اور کامل اخلاص کے ساتھ فرائضِ منصبی سرانجام دیں اور مذہبی کرپشن سمیت ہر طرح کی پرپشن کا قلع قمع کرنے میں ایک دوسرے کا بھر پور ساتھ دیں۔
  ماضی کے مارشل لاؤں سے سبق سیکھنا چاہیئے! کہ کیا وطنِ عزیز سے کرپشن کا خاتمہ کردیا تھا یا کہ اس میں کئی گنا اضافے کا سبب ثابت ہوئے تھے؟ کرپشن کیا صرف سولین پاکستانی ہی کرتے ہیں؟ کیا ہر ایک فوجی صالح و متّقی یا فرشتہ صفت اور ہر سولین شیطانی اوصاف کا حامل ہے؟ یا پھر اچھے برے انسان معاشرے کے ہر طبقے اورملک کے ہر چھوٹے بڑے  ادارے میں ضرور موجود ھوتے ہیں؟ سولین پاکستانیوں اور ملک کے سول  اداروں اور محکموں سے کرپشن کا خاتمہ کیا  فوج کا کام ہے؟ کیا فوجی قیادت کو افواجِ پاکستان اور ان کے ماتحت اداروں سے کرپشن  کے مکمّل خاتمے کو یقینی بنانے کا کام نہیں کرنا چاہیئے؟ ملک کے سولین اداروں، محکموں اور معاشرے کے تمام طبقات سمیت سیاست و ریاستِ پاکستان سے کرپشن کی اس لعنت سے نجات کا حصول کیاعوام کی منتخب جمہوری حکومت، عدلیہ اور ہم سب کی مشترکہ ذمّہ داری نہیں ہے؟ ہم تو کرپٹ ترین عناصر کو اپنا سیاسی قائد مانیں انہی کو "بڑا آدمی" سمجھیں انہی کو بار بار ووٹ دے کر منتخب کریں اور ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دیتے رہیں اور فوج سے مطالبہ کریں کہ سولین کرپٹ عناصر کو کیفرِ کردار تک پہنچائے، کیا یہ کھلا تضاد، حماقت و منافقت نہیں۔ فوج نے منتخب عوامی و جمہوری حکومت کی  مرضی اور حمایت کے بغیر اگر کبھی ایسا کوئی قدم اٹھایا تو عوام الناس کی بڑی اکثریت نے پھر پلٹ ان ہی مفاد پرست، خود غرض، کرپٹ، عادی جرائم پیشہ  عناصر کی سپّورٹ میں پرتشدد احتجاج کیلئے اٹھ کھڑے ہونا ہے (کیوں کہ زیادہ  لوگ ایسے عناصرکو ہی "بڑا آدمی"  مانتے ہیں) خاکم  نتیجتاً بدہن! ملک میں انارکی پیدا کرنے کا دشمن کا دیرینہ خواب پورا ہو جانا ہے۔  
 ہماری مسلح افواج کو (جن پر کہ ہمیں بجا طور پر فخرہے) سیاسی دنگل میں حصّہ دار ی پر اکسانے والے عناصر، دراصل اپنی غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے ہر اچھے عمل کا کریڈٹ صرف اور صرف افواجِ پاکستان کی اعلٰی کمان کودینے اور ہر برے کام کا ذمّہ دار فقط قومی سیاسی قیادت کو قرار دے دیتے ہیں جو کہ دیانتدارانہ  و منصفانہ طرزِ ِ فکر و عمل نہیں ہے۔ چاپلوسی اور خوشامد کے ایکسپرٹ چند عناصر قوم کو کنفیوژن میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، یہ نادان عناصر اگر مسلح افواج کو متنازع بنا کر پاکستان دشمنوں کو خوش کرنے کی گھناؤنی سازشوں سے باز نہیں آتے تو ہمیں ان کے مذموم عزائم کو بے نقاب ضرور کرتے رہنا چاہئے  یہ بھی  اس وقت  حبّ الوطنی کا ایک اہم  تقاضہ ہے۔  بہت ضروری ہے کہ ہر ادارہ اپنے اپنے آئینی دائرہءِ کار کے اندر یکسو رہتے ہوئے اپنے اپنے فرائضِ منصبی کو پوری ایمانداری، دیانتداری اور فرض شناسی کے ساتھ انجام دے ۔   ھمیں بہرصورت یاد رکھنا چاہیئے کہ مسلّح افواج اورنیشنل سیکورٹی کے ادارے، انٹیلیجنس ایجنسیز ہر ملک میں ہوتی ہیں  اورانڈیا سمیت دنیا کے اکثرو بیشتر ممالک میں وہ اپنے آئینی دائرہءِ کاراورقانونی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے، سول حکومتوں کی ماتحتی میں ہی اپنے فرائضِ منصبی سرانجام دیتی ہیں اور یہ عمل پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کی ترقی، استحکام، قومی سلامتی اور وقار کے لئے نہایت ضروری بھی ہوتا ہے۔  بد قسمتی سے ہمارے ملک و معاشرے میں بعض  ایسے عاقبت نا اندیش عناصر  پر مشتمل ایک لابی ایسی بھی موجود رہتی ہے  جو کسی بھی بہانے پاکستان کی قابلِ فخر، جرأتمند، بہادر اور محبِّ وطن مسلح افواج  کی توجّہ ان کے اصل (آئینی) فرائضِ منصبی اور پیشہ وارانہ ذمّہ داریوں سے  ہٹانے اور ان کو   سیاسی معاملات میں گھسیٹنے کی مذموم و مکروہ سازشوں میں مصروفِ عمل ہیں ،  ایسے عاقبت نا اندیش عناصر ہماری مسلح افواج کو متنازع بنا کر ، دراصل پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے عناصر کی ہر سطح پر سخت ترین  مذمّت اور حوصلہ شکنی پاکستان کے ہر محبّ وطن شہری کا فرض ہے، کیونکہ آج ہر پاکستانی اپنی مسلّح افواج پر فخر کرتا ہے اور پوری  پاکستانی قوم متحد  ہو کر ، دل و جان سے اپنی افواج  کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے خدا نخواستہ فوج نے سیاسی اقتدار پر غیر آئینی تسلّط جمانے کی کوشش کی تو قوم تقسیم ہو جائے گی،   عوام النّاس کی واضح اکثریت   اگرچہ کہ سیاسی قیادت کی کرپشن اور ناقص کارکردگی سے نالاں ضرور ہے  مگر ایسے کسی بھی غیر آئینےی عمل کی حمایت ہرگز نہیں کرے گی۔   ملک اس وقت نازک ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ اس وقت پوری پاکستانی  قوم کا متحد و منظم ہو کر متفقہ طور پر بدستور اپنی مسلّح افواج کی دل و جان سے حمایت جاری رکھنا انتہائی ضروری ہے





No comments:

Post a Comment