Tuesday, 21 July 2020

اردو ہماری قومی زبان ہے


Monday, 18 May 2020

بچوں کو اردو پڑھائیں

ہمیں چاہیئے کہ اپنے بچوں کو ان کی مادری زبان، اپنی قومی زبان اردو بولنا، لکھنا، پڑھنا، سمجھنا سکھائیں، اپنے گھروں، دفاتر، کام کاروبار کے مقامات اور مدارس (سکولز) میں تمام امور و معاملات کو اردو میں نمٹائیں، اردو اور دیگر مقامی و علاقائی زبانوں کو پورے عزم و استقلال کے ساتھ ہر سطح پر رائج کریں اود انہیں فخر و اعتماد سے انگریزی زبان پر ترجیح و فوقیت اور اولیت دیں، اپنے تعارف نامے، دعوت نامے، گھروں پر ناموں کی تختیاں، تمام تر خط و کتابت وغیرہ میں اردو زبان کو اختیار کریں اور بجا طور پر یہ فخر کی بات ہے۔
اس ضمن میں ہمیں مضبوط و مستحکم قوت ارادی، مستقل مزاجی اور خوداعتمادی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قومی تعمیر و ترقی کی جانب ہمارے تیزی سے قدم آگے بڑھ سکیں، ہمیں انگریزی زبان میں مہارت کو تعلیم یافتہ ہونے کا معیار سمجھنے کی روش ترک کر دینی چاہیئے کیونکہ انگریزی زبان بھی اردو، پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، سرائیکی، پوٹھوہاری، کشمیری وغیرہ متعدد زبانوں میں سے محض ایک زبان ہی ہے، کوئی علم و ہنر یا امتیازی فن، عقل و شعور، فہم و فراست، علم و دانش، ذہانت و فطانت کا معیار ہر گز نہیں ہے، شکریہ!
(پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں)

No comments:

Tuesday, 26 May 2020

قومی زبان اردو کا نفاذ آئینی تقاضہ ہے۔

السلام علیکم و رحمة الله و بركاته
قومى زبان اردو کا نفاذ بلا شبہ آئینی تقاضہ بھی ہے اور ہر میدان و شعبہء زندگی میں تعمیر و ترقی کےلیے بنیادی و اولین ضرورت بھی ہے، کم از سیکنڈری سکول سرٹیفیکٹ تک ذریعہ تدریس و تعلیم علاقائی و مقامی مادری زبانوں کے ساتھ ساتھ "اردو" ہونا بھی ناگزیر ہے تاکہ طلباء و طالبات کی تخلیقی و تعمیری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور مزید نکھارنے میں مدد مل سکے، مزید از آں سی ایس ایس تمام مسابقتی امتحانات و انٹرویوز بھی قومی زبان میں ہی منعقد ہونے چاہئیں، اس کے علاوہ مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور باقی جمیع ریاستی و آئینی اداروں، دفاتر میں سارے امور و معاملات بھی قومی زبان اردو میں ہی نمٹائے جانے ضروری ہیں، اس تناظر میں عدالت عظمٰی کے کے فیصلے پر عملدرآمد بھی ہو سکے گا اور ائین پاکستان میں قومی زبان کے نفاذ سے متعلقہ آرٹیکل پر بھی عملدرآمد ہو سکے گا، اس جانب پورے اخلاص و سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

قومی زبان اردو کے نفاذ و ترویج کے بغیر، غیر ملکی زبان انگریزی کو اختیار کر کے کسی بھی سطح پر ترقی و خوشحالی کی منزل کا منزل کا حصول ممکن نہیں ہے

تاریخ کے مطالعے سے اس حقیقت کے بے شمار اور ناقابل تردید شواہد و ثبوت ملتے ہیں کہ دنیا میں آج تک جن جن بھی اقوام و ریاستوں نے قومی، سائنسی، تخلیقی، علمی، معاشی، تحقیقی، صنعت و حرفت، ایجادات اور دیگر تمام تر شعبہ ہائے زندگی میں تعمیر و ترقی کی منازل طے کر کے عالم انسانیت میں اپنا نمایاں مقام بنایا ہے وہ کسی بھی غیر ملکی زبان کی مدد سے نہیں بلکہ اپنی مقامی و قومی زبان کو اختیار کرنے کی وجہ سے ہی اقوام عالم میں وہ بلند مقام و مرتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
دوسری جانب ہم فرنگی کی غلامی کے طوق کو ہی اپنا مقدر بنائے رکھنے پر بضد ہیں اور اپنی قومی زبان کو غیر ملکی زبان کے مقابلے میں ذرا سی بھی اہمیت نہیں دیتے، فرقہ بندی و فرقہ پرستی کی طرح ہم انگریزی زبان کی لعنت سے بھی نجات حاصل کر کے اور قرآن و سنة کے آفاقی و بے مثال احکامات، ہدایات، تعلیمات اور فرمودات کی تعمیل و اطاعت اور اتباع و پیروی اختیار کرنے اور اپنی قومی زبان کو بدیسی زبان پر اولین ترجیح س فوقیت دے کر اپنی نسلوں کو عقل و شعور، فہم و فراست اور قومی تعمیر و ترقی سے کی راہوں سے دور کرنے پر مصر ہیں اور دہائی میں پچھلے عرصے سے کہیں زیادہ سنگین مسائل کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔
لله عقل کے ناخن لیجئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس متفقہ آئین کا ہی کچھ تو احترام کر لیجئے جس کا حلف اٹھا کر آپ ریاست کے کسی بھی ستون کے سربراہ بنتے ہیں اور حلفاً اقرار و عہد کرتے ہیں کہ اس ایین کی حفاظت و تنفیذ اور تعظیم و توقیر اور ائین پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد کو بہر صورت یقینی بنائیں گے، اس آئین کے تحت ریاست کے ہر ادارے میں مکمل طور پر قومی زبان اردو کا نفاذ کرنے کےلیے زیادہ سے زیادہ پچیس سال کی مدت مقرر کی گئی ہے، بعد از آں قومی زبان اردو کے نفاذ کےلیے عدالت عظمٰی کے فیصلے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں لیکن افسوس صد افسوس کے فرنگی کی ذہنی غلامی کے جنون میں گرفتار حکمران اور ریاستی و آئینی اداروں کے سربراہان و دیگر حلف بردار عناصر اپنے حلفیہ عہد و اقرار اور عزم کو فراموش کر کے نہ صرف آئین کو پامال کر رہے ہیں بلکہ عدالت عظمٰی کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کر کے توہین عدالت کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔
ضروری ہے کہ اس حوالے سے قومی زبان اردو کے نفاذ کےلیے منظم، مؤثر اور بامقصد و نتیجہ خیز تحریک چلائی جائے اور بغرض مذکورہ عدالت عظمٰی میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر کے اس کی باقاعدہ پیروی کی جائے۔

قومی زبان اردو کے عملی نفاذ کی ضرورت و اہمیت اور افدیت و ناگزیریت

تاریخ کے مطالعے سے اس حقیقت کے بے شمار اور ناقابل تردید شواہد و ثبوت ملتے ہیں کہ دنیا میں آج تک جن جن بھی اقوام و ریاستوں نے قومی، سائنسی، تخلیقی، علمی، معاشی، تحقیقی، صنعت و حرفت، ایجادات اور دیگر تمام تر شعبہ ہائے زندگی میں تعمیر و ترقی کی منازل طے کر کے عالم انسانیت میں اپنا نمایاں مقام بنایا ہے وہ کسی بھی غیر ملکی زبان کی مدد سے نہیں بلکہ اپنی مقامی و قومی زبان کو اختیار کرنے کی وجہ سے ہی اقوام عالم میں وہ بلند مقام و مرتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
دوسری جانب ہم فرنگی کی غلامی کے طوق کو ہی اپنا مقدر بنائے رکھنے پر بضد ہیں اور اپنی قومی زبان کو غیر ملکی زبان کے مقابلے میں ذرا سی بھی اہمیت نہیں دیتے، فرقہ بندی و فرقہ پرستی کی طرح ہم انگریزی زبان کی لعنت سے بھی نجات حاصل کر کے اور قرآن و سنة کے آفاقی و بے مثال احکامات، ہدایات، تعلیمات اور فرمودات کی تعمیل و اطاعت اور اتباع و پیروی اختیار کرنے اور اپنی قومی زبان کو بدیسی زبان پر اولین ترجیح س فوقیت دے کر اپنی نسلوں کو عقل و شعور، فہم و فراست اور قومی تعمیر و ترقی سے کی راہوں سے دور کرنے پر مصر ہیں اور دہائی میں پچھلے عرصے سے کہیں زیادہ سنگین مسائل کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔
لله عقل کے ناخن لیجئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس متفقہ آئین کا ہی کچھ تو احترام کر لیجئے جس کا حلف اٹھا کر آپ ریاست کے کسی بھی ستون کے سربراہ بنتے ہیں اور حلفاً اقرار و عہد کرتے ہیں کہ اس ایین کی حفاظت و تنفیذ اور تعظیم و توقیر اور ائین پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد کو بہر صورت یقینی بنائیں گے، اس آئین کے تحت ریاست کے ہر ادارے میں مکمل طور پر قومی زبان اردو کا نفاذ کرنے کےلیے زیادہ سے زیادہ پچیس سال کی مدت مقرر کی گئی ہے، بعد از آں قومی زبان اردو کے نفاذ کےلیے عدالت عظمٰی کے فیصلے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں لیکن افسوس صد افسوس کے فرنگی کی ذہنی غلامی کے جنون میں گرفتار حکمران اور ریاستی و آئینی اداروں کے سربراہان و دیگر حلف بردار عناصر اپنے حلفیہ عہد و اقرار اور عزم کو فراموش کر کے نہ صرف آئین کو پامال کر رہے ہیں بلکہ عدالت عظمٰی کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کر کے توہین عدالت کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔
ضروری ہے کہ اس حوالے سے قومی زبان اردو کے نفاذ کےلیے منظم، مؤثر اور بامقصد و نتیجہ خیز تحریک چلائی جائے اور بغرض مذکورہ عدالت عظمٰی میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر کے اس کی باقاعدہ پیروی کی جائے۔

Sunday, 25 December 2016

یومِ آزادی کے اس مبارک و مسعود اور پر مسرّت موقع پر، ہم وطنوں کے نام ایک درد مندانہ پیغام و عرضداشت۔

تمام تر پیارے اور محبِّ وطن پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کو، دل کی گہرائی سے، ملکی آزادی کی 69ویں سالگرہ کا دن بہت بہت مبارک ہو۔
یومِ آزادی کے اس مبارک و مسعود اور پر مسرّت موقع پر، ہم وطنوں کے نام ایک درد مندانہ پیغام و عرضداشت۔
منجانب: ڈاکٹرپرویز اقبال آرائیں
تمام محبِّ وطن پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کو ملک کی آزادی کا جشن بہت بہت مبارک ہو! اللہ میرے ہموطنوں کو بھی حقیقی آزادی کی نعمت اور ثمرات عطا فرمائے۔ آمین!
یہ وطن ہمارا ہے کسی اور کا نہیں، بلا شبہ مجرمانہ ذہنیّت کے حامل عاقبت نا اندیش  و ملٹری اسٹیبلشمنٹ  کے پروردہ ، غلامانہ ذہنیت کے حامل عناصر ہر پارٹی، گروہ، جماعت اور معاشرے کے مختلف طبقات میں ہو سکتے ہیں۔ ان کی ہر قسم کی منفی اور مجرمانہ سرگرمیوں کی نشان دہی اور ہر سطح پر حوصلہ شکنی و مذمّت نیز اصلاح کی کوشش کرنا ، محبّ وطن شہری کی حیثیت سےمعاشرے کے ہر فرد ،بالخصوص علماءِ اسلام و مصلحین و مبلّغین کی انسانی، دینی و اسلامی ذمّہ داری بنتی ہے۔  ایسے خود غرض و مفاد پرست عناصر کے خلاف بلا تخصیص و امتیاز بروقت مؤثر کاروائی کرتے ہوئے ان کی مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کرنا، عبرت ناک، قرار واقعی سزایئں دلوانا اور ہر پاکستانی کے جان و مال اور عزّت و آبرو کو ایسے عناصر کی مجرمانہ کاورائی، شر انگیزی و فتنہ پروری سے بہر صورت مکمّل تحفظ اور احساسِ تحفّظ فراہم کرنا حکومت، پارلیمنٹ اور اس کے ماتحت اداروں  بالخصوص عدلیہ کی اوّلین ذمّہ داری بنتی ہے جس کی کماحقّہ بجا آوری سے غفلت و لا پرواہی یا نا اہلی و ناکامی انہیں اپنے مناصب پر برقرار رہنے کے جواز  اور معاشرے میں کسی باوقار مقام، عزت و وقار سے محروم کرتی ہے اور ایسی حکومت اپنا حقِّ حکمرانی کھو بیٹھتی ہے، اسے اپنے ملک کے شہریوں سے محصولات (ٹیکشز) وغیرہ کی وصولی کا بھی  کوئی انسانی، اسلامی، آئینی و قانونی حق باقی نہیں رہتا۔
جس طرح بعض نام نہاد مذہنی پیشواؤں نے اللہ تعالٰی اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ و اٰلہ و سلّم) کی نافرمانی کرکے مسلم امّۃ کو فرقہ فرقہ کر دیا، بعینہ ہمارے سیاسی رہنماؤں نے بھی پاکستانی قوم کو منتشر و متحارب گروہوں میں بانٹ کر رکھ دیا۔ اس طرح اسٹیبلشمنٹ کے ذھنی غلام ایک طبقہ نے اللہ و رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ و اٰلہ ٖو سلّم) کے ساتھ اپنا عہد توڑا اور ان  کے بالکل واضح و صریح احکامات کی  نافرمانی کر کے امّۃِ مصطفوی میں تفرقہ ڈال دیا، اسےتقسیم در تقسیم کرکے تباہ و برباد کر دیا ، اسی طرح  اسٹیبلشمنٹ کے غلام دوسرے طبقہ نے، پاکستانی قوم کو مختلف و متعدد منتشر و متفرق لسانی و علاقائی  اور گروہی تعصبات میں بانٹ کر قوم کو منتشر مجمع بنا  کرتحریک آزادی کے مخلص قائدین و مجاہدینِ اور شہداء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم کے ساتھ غدّاری کی، اور ان کی تمام تر بے مثل و بے دریغ قربانیوں کو رائیگاں کر دیا جن کے نتیجے میں، قائدِ اعظم محمّد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی ولولہ انگیز اور مخلصانہ قیادت میں ایک (پاکستانی ) قوم بنی تھی۔ ایک عظیم امّۃ، امّۃِ مسلمہ جو کہ جسدِ واحد کی طرح امّۃِ واحدہ تھی، ایسی غیور و جفاکش قوم جو کہ متحد و منظم تھی، اسے عاقبت نا اندیش، مفاد پرست و خود غرض عناصر نے انتہائی بے رحمی اور بے خوفی سے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔
افسوس صد افسوس کہ اب "مسلم امّۃ" کا کوئی وجود باقی ہے نہ "پاکستانی قوم" کا اور ایک ہم ہیں  کہ جواب بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر آنکھیں کھولنے پر آمادہ نہیں اور اسٹیبلشمنٹ اور اس کے ذھنی غلام  عناصر کی اندھا دھند تقلید اور پیروی  مسلسل و متواتراب بھی  کرتے ہی چلے جا رہے ہیں۔  کاش کہ اب بھی ہم ہوش و حواس، عقل و شعور اور فہم و فراست کی نعمت سے کام لے کر اصلاحِ احوال کی کوئی تدبیر اختیارکرلیں۔  کاش کہ ہم اب بھی سمجھ اور سنبھل جائیں اور پاکستان کے پونے اکیس کروڑ سے زائد شہری اپنے انسانی، اسلامی، آئینی و قانونی حقوق کا شعور حاصل کرلیں اور اپنے جائز، انسانی، اسلامی، آئینی و قانونی اور شہری حقوق، محکومی و محرومی سے نجات ، امن و انصاف، بہتر و معیاری تعلیمی و صحتِ عامّہ کی سہولیات سمیت بنیادی انسانی ضروریات، ترقّی و خوشحالی کے حصول و تحفظ کی غرض سے، وسیع تر اور بہترین قومی و معاشرتی مفاد میں، متحد و منظم ہو جائیں، خود کو اس ظالم و بے رحم اسٹیبلشمنٹ اور اس کے بوٹ پالش کرنے والے ذھنی غلام حکمرانوں کی رعایا وعوام ماننے، سمجھنے کے بجائے عوْام و خوّاص اور وی۔آئی۔پی، وی۔وی۔آئی۔پی کے کلچر چکر سے نکلیں، اسٹیبلشمنٹ کے بنائے ہوئے نام نہاد و مفاد پرستانہ اصولوں کو ماننے سے انکار کردیں، معاشرے میں معزّز و معتبر سمجھے سمجھائے جانیوالے معیارات نام نہاد و خود غرضانہ اصولوں کو قرآن و سُنَّت کے احکامات کے مطابق بدل ڈالیں، فقط مال و زر، سونے، اثر و رسوخ، طاقت اور زمین کو ہی معتبری کا پیمانہ نہ بنائیں بلکہ تقوٰی و پرہیزگاری، اللہ کے خوف،سیرت و کردار، اخلاق و اطوار، کاردگی و اخلاص کو بھی دیکھیں اور پرکھیں۔ یہ ملک کسی جج یا جنرل کے باپ کی جاگیر و ملکیت نہیں بلکہ پاکستان کے 22 کروڑ غیور و باشعور اور مُحِّبِ وطن شہری ہی اس کے مالک و محافظ ہیں۔ اس ملک کو اپنا ملک سمجھیں اور خود کو اس کے قومی وسائل میں مساوی طور پر جائز و آئینی طور پر حصّہ دار اور حقدارسمجھیں، اس عظیم وطن عزیز کوجابر و غاصب اور ظالم و بے حس، بے رحم اور رہزن ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اُن کے مہروں، چیلوں، گماشتوں، کٹھ پُتلیوں اور کرپٹ عناصر کے جابرانہ و غاصبانہ تسلط سے آزاد کروانے کی جِد و جُہد کریں۔ یقین جانئے یہ ریاستِ پاکستان کسی بھی جنرل یا جنرلز، جج یا ججز، اُن کی ذھنی غلامی مے مرض میں مبتلا سیاستدانوں کی ذاتی جاگیر و نجی ملکیت نہیں ہے ایسے رویوں کی مزاحمت کریں، ان ناقص و نااہل، خود غرض، مفاد پرست، جرائم پیشہ، عاقبت نا اندیش، لوٹ مار کرنے والے رہزن قسم کے بے حس و بے رحم جنرلز، ججز اُن کے غلام مفاد پرست و خود غرض عناصر کی باتوں میں ہر گز نہ آئیں (جنہوں نے کہ 70 سالوں سے ہمارے پیارے پاکستان کے 100 فیصد قومی وسائل، قیمتی زمینوں، اقتدار اور قومی خزانے پر اپنا ناجائز، جابرانہ و غاصبانہ قنضہ و تسلط قائم کر کے ہمیں اپنا ادنٰی ترین غلام و رعایا بنا رکھا ہے) اور ان آزمائے ہوئے بد دیانت، خائن اور قومی وسائل کو لوٹنے والے کرپٹ جنرلز، ججز اور اُن کے آلہءِکار عناصر سے مزید اور بار بار دھوکہ مت کھائیں نہ ہی اب مزید انہیں اپنا حقّ،حکمرانی سونپیں۔
اپنے عقل و شعور اور فہم فراست سے کام لیں اور حریت پسند، اسٹیبلشمنٹ کی غلامی کی زنجیروں سے آزاد، ایسے محبِّ وطن، صالح، سچے ہمدرد و خیرخواہ، مخلص، باصلاحیت، اللہ تعالٰی کا خوف رکھنے والے دیانتدار و ایمان دار لوگوں کو اپنا نمائندہ منتخب کرکے پارلیمنٹ میں بھیجیں تاکہ اصلاحِ احوال کی کوئی امید بر آ سکے جس کی آس لگائے ہمارے آباء و اجداد قبروں میں جا سوئے ہیں۔ کم از کم ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ان کالے فرنگیوں سے بھی اسی طرح نجات دلاتے جائیں جس طرح ہمارے آباء و اجداد نے گورے فرنگیوں کی غلامی سے آزادی دلائی تھی اور اسلامی جمہوریہء پاکستان کا قیام ممکن اور حقیقت بنایا۔
افسوس کہ اسٹیبلشمنٹ نے 1947ء سے ہی اقتدار و وسائل پر اپنا تسلط جمالیا اور قوم کو اپنا محکوم، غلام، رعایا بنا لیا تھا اسی لئےآزادی کے اصل ثمرات پاکستان کے عام شہریوں تک نہیں پہنچنے پائے، گورے فرنگی کی غلامی سے نجات ملتے ہی اس کے وفادار، خدمت گذار اور نمک خوار، خاکی وردی والے کالے فرنگیوں نے اپنے مذموم عزائم پورے کرنے کی غرض و غایت سے اس نوزائیدہ مملکت کے قومی وسائل پر قابض ہو کر سازش کے تحت ہمیں اپنی رعایا بنا لیا اور شہری کی حیثیت جو ہمارے حقوق بنتے ہیں ان سے آج تک ہمیں محروم کئے رکھا ہے اورملک کے قومی وسائل کو یہ چند ہزار عناصر ہڑپ اور ہضم کر رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم حقیقی آزادی کو حاصل کر کے اس کے ثمرات و فوائد سے مستفید و مستفیض ہو سکیں۔آمین۔

Wednesday, 18 November 2015

طلبِ جہیزایک سنگین گناہ و جرم، بدترین لعنت اور معاشرتی ناسور

"طلبِ جہیز و فراہمیء جہیز اور بارات سنگین گناہ و جرائم، بدترین رسوم و لعنتیں اور معاشرتی ناسور ہیں"

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں، بانی صدر، تحریک نفاذ آئین، قرآن و سنت پاکستان

جہیز کی طمع و طلب اور خواہش و تقاضہ نیز قبولیت بنیادی طور پر خلافِ اسلام، غیر شرعی، غیر اسلامی، غیر انسانی و غیر اخلاقی، بدترین معاشرتی رسوم ہیں جو کہ مسلمانوں میں ہندو معاشرے کے ساتھ طویل رہن سہن اور احساس کمتری، قرآن و سنت سے انحراف و روگردانی اور سرکشی و نافرمانی کے عمومی روش و رویے اور رجحان کی وجہ سے در آئی آئی ہیں حالانکہ خود ان کے ہاں بھی ان رسوم کو معیوب و قابل نفرت و حقارت گردانا جاتا ہے اور ان کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے مگر افسوس صد افسوس کہ بد قسمتی سے ہمارے یہاں (پاکستان کے مسلم معاشرے میں) بد ترین لعنت اور معاشرتی ناسور بن کر یہ رسوم ہمارے رگ و پے میں بری طرح سرایت کر چُکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں کہ سسرالیوں نے اپنی بہو کو، شوہر نے اپنی دلہن کو جہیز کم لانے کے الزام میں اس پر مٹی کا تیل، پیٹرول، تیزاب چھڑک کر آگ لگا دی، نئی نویلی دلہن کو جلا کر جان سے مار ڈالا گیا،  مار پیٹ کر ذلیل کیا اور گھر سے نکال دیا، پنکھے سے لٹکا کر  پھانسی دے ڈالی، تیز دھار آلے/ چھریوں کے وار کر کے بےدردی و بےرحمانہ طریقے سے قتل کر دیا، چولھا، سٹوو پھٹنے سے ہلاک ہونے، خود کشی کرنے کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی وغیرہ! معصوم مقتولہ کے ساتھ یہ ظالمانہ و بہیمانہ، بربریت و سفاکیت پر مبنی بدسلوکی اور ظالمانہ و بےرحمانہ رویہ محض کم جہیز لے کر آنے کی پاداش میں اختیار کیا جاتا ہے، حالانکہ دین اسلام میں لڑکی کے والدین اور بھائیوں پر بارات کےلیے رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے وغیرہ کی ذمہ داری ہر گز نہیں ہے قرآن و سنت میں بارات و جہیز کا قطعاً کوئی تصور، گنجائش، جواز موجود و ثابت نہیں، آثار صحابہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، آئمہ محدثین و آئمہ فقہاء (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل) رحمہم اللہ تعالٰی اور ان کے شاگردوں اور علماء ربانیین صالحین و مفتیان اسلام رحمہم اللہ کے اقوال، تصانیف و تالیفات ہ کے اقوال و ارشادات اور مواعظ سے بھی کہیں بارات و جہیز کے جواز کا کوئی ثبوت میسر نہیں آتا جہیز بہر صورت حرام و ناجائز، لعنت و ناسور اور گناہ کبیرا ہے، اس حقیقت سے بھی کوئی اہل علم انکار کی جرأت نہیں کر سکتا کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمہ رضی الله تعالٰی عنہا سمیت کسی بھی بیٹی کو کوئی بھی اور معمولی سی چیز بھی جہیز میں نہیں دی۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا ابوطالب نے دادا حضرت عبدالمطلب کے بعد حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی پرورش و کفالت کی تھی اور پھر چچا ابوطالب کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پرورش و کفالت کی ذمہ داری، رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے سنبھالی تھی اور سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم، نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کے ہی پاس ان ہی کے گھر میں رہتے تھے تو اس لیے جب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی پیاری لخت جگر سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کا نکاح فرمایا تو انکے والد گرامی ابوطالب کی وراثت کے طور پر ایسی چند اشیاء ضروریہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو عطا فرمائیں جو ان کے والد کی طرف سے ترکے میں حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کے حصے میں آئی تھی  اور جن  کے بغیر علیحدہ مکان یا حجرے میں کسی جوڑے کا رہنا ممکن نہیں تھا اور وہ چیزیں حضرت علی رضی الله تعالٰی عنہ کے والد گرامی ابوطالب کی وراثت میں ان کا حصہ تھیں جو رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے بوقت ضرورت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے حوالے کر دی تھیں، نبی علیہ الصلوة والسلام نے حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا سمیت کسی بھی بیٹی کو ہرگز اور قطعاً کوئی جہیز نہیں دیا، سنت رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم، قرآن مجید اور ذخیرہء کتب حدیث سے جہیز کا کوئی جواز ثابت نہیں ہے اور نہ ہی آئمہ اربعہ، آئمہ فقہاء و مجتہدین یا علماء و صالحین کی تصانیف و تالیفات اور فتاویٰ سے جہیز کے جواز و ثبوت اور سنت نبوی ثابت ہوتا ہے، یہ محض ایک ایسی بے بنیاد، من گھڑت اور فضول و لغو بات اور صریح غلط فہمی ہے جس کو بلا تحقیق و تصدیق، جاہل مولویوں، علماء سوء اور نام نہاد و جعلی پیروں نے شر و فساد اور بدترین بدعت کے طور پر مسلم معاشرے میں پھیلایا ہوا ہے اور اس پر مصلحتاً خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور نناوے فیصد عام و خاص لوگ "جہیز دینے کے حرام و ناجائز اور گناہ کبیرہ عمل کو سنت سمجھنے لگ گئے ہیں بعض علماء سوء، قرآن و سنت کے احکامات سے لاعلم مولوی حضرات بتاتے ہیں کہ "جہیز سنت تو ضرور ہے مگر شرط یہ ہے کہ اسی کے بقدر ہو جو رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی الله تعالٰی عنہا کو دیا تھا" جبکہ یہ بات سرے سے ہی بے بنیاد، جھوٹی، لغو، فضول، من گھڑت ہے، جہیز طلب کرنا، جہیز طلب کیے بغیر یا تقاضے پر دینا، سو فیصدی اور بالکل ہی حرام و ناجائز، گناہ کبیرا ہے، یہ صرف ایک ہندووانہ رسم ہے، ایک بدترین لعنت و ناسور ہے۔ نکاح پر لڑکے پر واجب ہے کہ وہ حسب استطاعت مناسب حق مہر کے بعوض لڑکی سے نکاح کرے جبکہ لڑکی مقررہ حق مہر واجب کے بعوض لڑکے سے نکاح کو قبول کرے تو یہ درست و جائز اور شرعی عمل ہے، کوئی بھی والدین، رشتے دار، بھائی بہن لڑکی کو حسب استطاعت تحائف میں سوئی سے لے کر ہوائی جہاز تک ہر چیز یا نقد رقومات وقتاً فوقتاً بطور عطیہ و تحفہ دیں تو بالکل جائز و درست اور باعث اجر و ثواب ہے بس شرط یہ ہے کہ بغیر نمود و نمائش اور اعزہ و اقربا سمیت اڑوس پڑوس اور تعلق والوں یعنی تمام افراد معاشرہ و خاندان، قبیلے و برادری اور اہلیان علاقہ کو بتائے، دکھائے، نمود و نمائش کیے بغیر، خاموشی کے ساتھ کسی بھی موقع پر، کسی بھی وقت شادی کے کچھ عرصہ بعد اس طرح دیا جائے کہ دینے اور لینے والے کے سوا کسی بھی غیر کو اس کا علم نہ ہونے پائے۔ ہمیں چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے جہاں جہیز طلب کرنے، جہیز کا تقاضہ و مطالبہ کرنے، جہیز لینے اور قبول کرنے کو جہاں جائز اور فیشن بنا رکھا ہے وہیں لڑکیوں کو وراثت میں ان کا شرعی حصے سے محروم رکھنے اور لڑکیوں کو ان کے نکاح پر سود پر قرض لے کر، زمین، جائیداد، گھر بار رہن رکھ کر بھاری سود پر قرض لے کر بھی اپنی ناک اونچی رکھنے کےلیے نود و نمائش کے ساتھ اعلانیہ و فخریہ طور پر جہیز دینے کو ناگزیر ضرورت، جائز بلکہ سنت سمجھا جاتا ہے، اور پھر لڑکیوں کو والدین کی وراثت میں شرعی حصے سے محروم رکھنے میں بھی کوئی عار و عیب نہیں سمجھا جاتا۔ اس مطلق حرام و ناجائز رسم کے مکمل خاتمے کےلیے جہد مسلسل کا آغاز کریں،۔ کیونکہ جہیز کا دینا، لینا، طلب و خواہش یا تقاضہ و طمع رکھنا، ہر صورت میں حرام و ناجائز، لعنت و ناسور اور گناہ کبیرا ہے،
اسلامی و شرعی نکاح میں صرف چھ چیزوں کی ضرورت ہے، پہلی چیز کم از کم دو قابل قبول و معتبر اشخاص گواہان کی موجودگی ، دوسری چیز ان گواہان کے سامنے لڑکے اور لڑکی کا ایک دوسرے کو ایجاب و قبول، یہ دونوں چیزیں فرض ہیں، تیسری چیز حق مہر ہے جو کہ کم از کم دس درہم کے مساوی اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں، یہ واجب ہے، چوتھی چیز نکاح کے بعد خطبہ ء نکاح، پانچویں چیز نکاح موقع پر موجود افراد کا گڑ، شکر، بتاشوں، چھوہاروں، کھجوروں، مٹھائی یا کسی بھی شیرینی وغیرہ سے منہ میٹھا کروانا اور چھٹی چیز ہمبستری کے ایک دو یا زائد روز بعد حسب استطاعت چند یا بعض اعزہ و اقرباء، دوست احباب اور پڑوسیوں کو  سادہ و مناسب دعوت ولیمہ کی ضیافت کا اہتمام کرنا ان چھ چیزوں مجموعے کو نکاح، شادی، بیاہ، میرج، ویڈنگ کہتے ہیں، اس کے علاوہ باقی ساری چیزیں شرعاً غلط، ناجائز، حرام اور ممنوع ہیں، خرافات و فضولیات اور لغو و بیہودہ رسومات ہیں جن سے گریز و اجتناب اور پرہیز ضروری ہے۔
انہی کی وجہ سے شادی کی برکات اور سعادتیں، ختم ہو جاتی ہیں، نو بیاہتا جوڑے اور دونوں خاندانوں میں خلوص و محبت اور چاہت کا قلع قمع ہو جاتا ہے، رنجشیں اور شکوے شکایتیں جنم لینے لگتے ہیں اور اکثر و بیشتر، مایوں، مہندی اور نکاح پر ناچ گانے، جہیز کی نمود و نمائش، مخلوط محافل موسیقی، شہنائیوں، ڈھول باجوں، بموں، پٹاخوں، پھلجھڑیوں، فائرنگ جیسی خرافات کے ساتھ بارات،  سمیت قرآن و سنت کے دیگر بھی کئی احکامات سے کھلا انحراف و روگردانی، بغاوت و سرکشی اور نافرمانی کرنے کے بعد نکاح کی اس تاثیر، خیر و برکت اور سعادت کی امید کیوں کر کی جا سکتی ہے جس کی تقریبات میں احکام شریعت اسلامیہ کا ذرا بھی خیال نہ رکھا گیا ہو۔
 پھر بہو جلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے! --- پہلے اپنے آنگن میں بیٹیاں جلا دینا!
اسلام  (قرآن و سُنَّۃ) کے احکامات و پیغامات اور تعلیمات و ہدایات میں   کہیں بھی جہیز کو پسندیدہ سمجھا گیا ہے اور نہ ہی اس کو جائز  سمجھا گیا ہے بلکہ   طلب و تقاضہءِ جہیز کی رائج الوقت رسم  کو، اِسلامی احکامات و تعلیمات کے صریحًا خلاف  اور اُن سے انحراف کے مصداق ، حرام  عمل  ہے قبل از اسلام، دورِ جاہلیت   کے عرب  معاشرے میں میں اس کا  کوئی رواج نہ تھا۔  گویا کہ یہ دور جاہلیت  میں رائج برائیوں سے بھی بد ترین بُرائی ہے جسے اُس دور کے انسانوں نے بھی کبھی گوارا نیا نہ ہی روا رکھا۔
جب بَرِّعظیم (ہندوستان) میں، مسلمانوں کا سابقہ اس جاہلانہ  رسم سے پڑا تو اس کے معاشرتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء نے اس کے جواز یا عدم جواز کی بات کی۔ہمارے ہاں جہیز کا جو تصور موجود ہے، وہ واقعتاً ایک معاشرتی لعنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں اور ان کے اہل خانہ پر ظلم ہوتا ہے۔اگر کوئی باپ، شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کو کچھ دینا چاہے، تو یہ اس کی مرضی ہے اور یہ امر جائز ہے۔ تاہم لڑکے والوں کو مطالبے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو جہیز دیا گیا، وہ اس وجہ سے تھا کہ سیدنا علی نبی کریم ﷺ کے زیر پرورش تھے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آپ نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو کچھ سامان دیا تھا کیونکہ یہ دونوں ہی آپ کے زیر کفالت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے دیگر دامادوں سیدنا ابو العاص اور عثمان رضی اللہ عنہما کے ساتھ شادیاں کرتے وقت اپنی بیٹیوں کو جہیز نہیں دیا تھا۔جہیز سے ہرگز وراثت کا حق ختم نہیں ہوتا ہے۔ وراثت کا قانون اللہ تعالی نے دیا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر شدید وعید سنائی ہے۔ جہیز اگر لڑکی کا والد اپنی مرضی سے دے تو اس کی حیثیت اس تحفے کی سی ہے جو باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔لیکن اس میں اسراف و نمود اور اعلان و نمائش سے بہرطور گریز کرنا چاہیے۔
ناجائز کام میں معاونت بھی ناجائز و گناہ ہے۔ کسی اسلامی و دینی فریضے کی غیر اسلامی  اور حرام و ناجائز طریقے سے بجا آوری کیا معنٰی رکھتی ہے؟ اسلام مخالف ناجائز و حرام رسوم و رواج اور طور و طریقے کے تحت کوئی اسلامی فرض کس طرح انجام پا سکتا ہے؟ دلہے کو ڈھول کی تھاپ اور شہنائیوں کی گونج میں مسجد لیجا کر سلام کروانے کی رسم، غیر محرم جوان لڑکے اور لڑکیوں کا مخلوط محفل میں رقص اور مجرا ، جہیز کا لین دین، لڑکی والوں سے باراتیوں اور دلہا والوں  کی پر تکلف ضیافت اور رشتے داروں کو تحائف کا مطالبہ وغیرہ کیا دین اسلام سے کھلی بغاوت نہیں؟ اگر ایسا کرنا صحیح ہے تو پھر بغیر وضو اور بغیر لباس صلٰوۃ ادا کرنا اور ہر رکعت میں ایک یا تین سجدے کرنا اور ہر رکعت میں ایک فون کال سن لینا یا خود کال کر لینا اور پوری صلٰوۃ ادا کر کے آخر میں فقط ایک ہی بار سلام پھیرنا یا ہر رکعت میں سلام پھیرنا یا ظہر کی تین، عصر کی پانچ، رکعتیں پڑھ کر صلٰوۃ قائم کرنا بھی جائز ہی ہو گا اور  اگر نہیں تو باقی اسلامی فرائض اور احکامات کی تعمیل من مانے غیر اسلامی طریقوں سے کس طرح جائز ہو سکتی ہے؟؟؟ جہیز کا لینا اور دینا صریحاً ناجائز اور حرام ہے،  شادی بیاہ کا مروجّہ طریقہ اور رسومات و رواج مشرکانہ و ہندوانہ، ناجائز و حرام ہیں ، ان کے تحت انجام پانے والی شادی اور عقود نکاح کی شرعی حیثیث متنازع و مشکوک ہے اس میں خیر و برکت تو بعد کی باتیں ہیں پہلے تو اس کا انعقاد ہی مشکوک و متنازع ہے۔  اس طرح کی شادیاں   اسلام کی بنیادی تعلیمات و ہدایات اور احکامات کی مخالفت کر کے اور ان کا  مذاق اُڑانے کے مصداق و مماثل عمل اور معاشرتی لعنت و ناسور ہے۔جہیز سمیت شادی بیاہ کی تمام تر اسلام مخالف مشرکانہ و ہندوانہ رسومات و روائج کا خاتمہ فرض ہے۔ کوئی مالدار باپ اپنی بیٹی کو تحفے میں کچھ دینا چاہے تو دلہا والوں کی خواہش و تقاضے کے بغیر اپنی خوشی سے شادی کے بعد اپنی بیٹی کو غیر اعلانیہ طور پر چپکے سے دے  آئے تو جائز ہے ورنہ نہیں ۔اللہ کا واسطہ دین کو نہیں بلکہ خود کو بدلو!

Friday, 4 September 2015

تمام تر جرائم، کرپشن کی کوکھ سے جنم لیتے اور اسی کے سائے تلے پروان چڑھتے ہیں

بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

تمام تر جرائم، کرپشن کی کوکھ سے جنم لیتے اور اسی کے سائے تلے پروان چڑھتے ہیں
تحریر: پرویز اقبال آرائیں
قوم و ملک کے بہترین اور وسیع تر مفاد میں *"طلبِ جہیز ایک سنگین گناہ و سنگین جرم، بدترین لعنت اور معاشرتی ناسور ہے"*

*از قلم: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں، بانی صدر، تحریک نفاذ ائین، قرآن و سنت پاکستان*

نکاح ایک حکم الٰہی ہے، رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم کی سنت ہے، قرآن و سنت کے احکامات کی روشنی میں نکاح مجموعی طور پر صرف 6 چھ چیزوں کے مجموعے کا نام ہے، جس میں میں دو فرائض، ایک واجب اور تین سنتیں شامل ہیں، فرائض میں دو گواہان کی موجودگی اور دلہے و دلہن کا ایجاب و قبول شامل ہیں، تیسری چیز حق مہر ہے جو کہ واجب ہے، خطبہءنکاح، کھجور یا چھوہارے یا کوئی شیرینی وغیرہ نکاح کے موقع پر موجود حاضرین میں بانٹنا اور رخصتی و ہمبستری کے بعد اگلے دنوں میں دلہے کی طرف سے بعض اعزاء و اقرباء اور چند مساکین کو ولیمے کی ضیافت کا اہتمام کرنا یہ تینوں چیزیں سنت ہیں۔
دلہے والے اگر بارات کو نکاح کے موقع پر کھانا کھلانا چاہیں تو وہ اپنے طور پر اپنے خرچے سے اس کا اھتمام کر سکتے ہیں، دلہن والوں کے خرچ پر پکایا گیا کھانا دلہے، اس کے افراد خاندان، دوست و احباب یعنی باراتیوں کو کھانا جائز نہیں ہے۔ 
جہیز بنیادی طور پر ایک خلافِ اسلام، غیر شرعی، غیر انسانی  و غیر اخلاقی معاشرتی رسم ہے کہ مسلمانوں میں  جو ہندوؤں کے ہاں  سے در آئی ہے۔ خود ان کے ہاں بھی اسے معیوب گردانا جاتا ہے اور  اس کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے مگر افسوس صد افسوس کہ بد قسمتی سے  ہمارے یہاں (مسلمان معاشرے میں) یہ حرام رسم ایک  بد ترین لعنت اور معاشرتی ناسور بن چُکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں کہ سسرالیوں نے  اپنی بہو کو، شوہر نے اپنی دلہن کو کم جہیز لانے پر مٹی کا تیل، پیٹرول، تیزاب  چھڑک کر جلا دیا، جان سے مار دیا، پنکھے سے لٹکا کر، پھانسی یا پھندا لگا کر ہلاک کر دیا، تیز دھار آلے/ چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا اور اسے خود کشی کا رنگ دینے کےلیے ڈھونگ رچایا وغیرہ! کیونکہ مقتولہ کم جہیز لائی تھی۔ 
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
پھر بہو جلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے
پہلے اپنے آنگن میں بیٹیاں جلا دینا!
اسلام  (قرآن و سُنَّۃ) کے احکامات و ہدایات، پیغامات و فرمودات اور تعلیمات میں   کہیں بھی جہیز کو پسندیدہ سمجھا گیا ہے اور نہ ہی اس کو جائز و ضروری قرار دیا گیا ہے بلکہ طلب و تقاضہءِ جہیز کی رائج الوقت رسم  کو، اِسلامی احکامات و تعلیمات کے صریحًا خلاف اور اُن سے انحراف و روگردانی کے مصداق و مماثل، حرام و ناجائز عمل قرار دیا گیا ہے قبل از اسلام، دورِ جاہلیت   کے عرب معاشرے میں اس کا  کوئی رواج نہ تھا۔  گویا کہ یہ دور جاہلیت  میں رائج برائیوں سے بھی بد ترین بُرائی ہے جسے اُس دور کے انسانوں نے بھی کبھی گوارا کیا نہ ہی روا رکھا۔
جب بَرِّصغیر (ہندوستان) میں، مسلمانوں کا سابقہ اس جاہلانہ  رسم سے پڑا تو اس کے معاشرتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء دین نے اس کے جواز یا عدم جواز کے حوالے سے بات نہیں کی۔ ہمارے ہاں جہیز کا جو تصور موجود ہے، وہ واقعتاً ایک معاشرتی لعنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سارے غریب گھرانوں کی معصوم لڑکیوں اور ان کے اہل خانہ پر سنگین ظلم ہوتا ہے۔ 
اگر کوئی ماں باپ، شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کو کچھ دینا چاہیں، تو یہ ان کی صوابدید و مرضی ہے اور یہ امر جائز ہے بشرطیکہ اس کا اعلان کیا جائے نہ ہی نمود و نمائش اور اظہار عام ہو، تاہم لڑکے والوں کو مطالبے کا کوئی حق و اختیار مطلقاً حاصل نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رسول الله صلى الله عليه و آلہ و سلم نے بھی تو اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمة الزہرہ رضی الله تعالٰی عنہا کو جہیز دیا تھا یہ ایک غلط فہمی کی بناء پر پھیلایا جانے والا جھوٹ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللّٰه عليه و آله و سلم نے جو چند اشیاء ضروریہ نکاح کے موقع پر دی تھیں وہ اس وجہ سے دی تھیں کیونکہ سیدنا علی المرتضی کرم الله وجهه الكريم، حضور عليه الصلاة والسلام کے چچا اور سیدنا علی ابن ابی طالب رضی الله تعالٰی عنہ کے والد گرامی کی رحلت کے بعد سے حضرت علی رضی الله تعالٰی عنہ، نبی کریم ﷺ کی کفالت میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہی ان کی پرورش کی تھی۔ اپنی پیاری صاحبزادی کے ساتھ ان کی شادی کے بعد انہیں الگ مکان میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی تو انہیں انتہائی ضرورت کی چند اشیاء حضرت علی کو عطا فرمائی تھیں یوں سمجھ لیجیے کہ آپ نے اپنے زیر کفالت پرورش پانے والے اپنے چچا زاد بھائی کو کچھ سامان دیا تھا کیونکہ یہ وہ بھی حضرت بی بی فاطمہ کی طرح آپ صلی اللّٰه عليه و آله و سلم کے هى زیر کفالت رہے تھے۔ یہ حقائق اس بات سے بھی بخوبی سمجھے جا سکتے ہیں کہ آپ صلی الله عليه و آله و سلم نے اپنے دیگر دامادوں سیدنا ابو العاص اور عثمان رضی الله عنہما کے ساتھ شادیاں کرتے وقت اپنی بیٹیوں کو کوئی بھی چیز جہیز میں نہیں دیی تھی۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جہیز دینے کے بعد بھی کسی صورت بھی کسی لڑکی کاحق وراثت ہرگز ختم نہیں ہوتا ہے۔ وراثت کا قانون الله تعالٰی کے واضح سے لیا گیا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر شدید وعید سنائی گئی ہے۔ جہیز اگر لڑکی کا والد اپنی مرضی سے دے تو اس کی حیثیت اس تحفے کی سی ہے جو باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔لیکن اس میں اسراف و تبذیر  اس کے اعلان و اظہار اور نمود و نمائش سے گریز کرنا ضروری ہے۔

ناجائز کام میں معاونت بھی ناجائز و گناہ ہے۔ کسی اسلامی و دینی فریضے کی غیر اسلامی  اورحرام و ناجائز طریقے سے بجا آوری کیا معنٰی رکھتی ہے؟ اسلام مخالف ناجائز و حرام رسوم و رواج اور طور و طریقے کے تحت کوئی اسلامی فرض کس طرح انجام پا سکتا ہے؟ دلہے کو ڈھول کی تھاپ اور شہنا ئیوں کی گونج میں مسجد لے جا کر سلام کروانے کی رسم، غیر محرم جوان لڑکے اور لڑکیوں کا مخلوط محفل میں رقص اور مجرا، ڈانڈیاں کھیلنا، مہندی و مایوں کی رسومات اور ان مواقع پر مخوط مجالس ،جہیز کا لین دین، لڑکی والوں کی طرف سے باراتیوں اور دلہا والوں کی پر تکلف ضیافت اور رشتے داروں کو تحائف کا مطالبہ وغیرہ کیا دین اسلام سے کھلی بغاوت نہیں؟ اگر ایسا کرنا صحیح ہے تو پھر بغیر وضو اور بغیر لباس صلٰوۃ ادا کرنا اور ہر رکعت میں ایک یا تین سجدے کرنا اور ہر رکعت میں ایک فون کال سن لینا یا خود کال کر لینا یا تھوڑا ڈانس کر لینا اور پوری صلٰوۃ ادا کر کے آخر میں  فقط ایک ہی طرف بار سلام پھیرنا یا ہر رکعت میں سلام پھیرنا یا ظہر کی تین، عصر کی پانچ، رکعتیں پڑھ کر صلٰوۃ ادا کرنا بھی جائز ہی ہونا چاہیے مگر ہم میں سے کوئی بھی ایسا کرتا ہے اور نہ اسے درست و جائز عمل کے طور پر قبول و تسلیم کرنے پر آمادہ ہو سکتا ہے تو پھر نکاح کے حکم الله و سنت رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم سمیت باقی اسلامی فرائض اور احکامات کی تعمیل من مانے، من پسند، من گھڑت، بے بنیاد، ناجائز و حرام اور ممنوع و غیر اسلامی طریقوں سے کس طرح جائز و درست مانی جا سکتی ہے؟؟؟ جہیز کا لینا اور دینا ناجائز اور حرام ہے، شادی بیاہ کا مروجّہ طریقہ اور رسم و رواج مشرکانہ و ہندوانہ، ناجائز و حرام ہیں، ان کے تحت انجام پانے والی شادی اور عقود و نکاح کی شرعی حیثیث متنازع ہے اس میں خیر و برکت تو بعد کی باتیں ہیں پہلے تو اسکا انعقاد ہی مشکوک و متنازع ہے۔ اس طرح کی شادیاں اسلام کے بنیادی احکامات و ہدایات، تعلیمات و فرمودات اور پیغامات کی مخالفت کرنے اور ان کا مذاق اُڑانے کے مصداق و مماثل حرام عمل اور معاشرتی لعنت و ناسور ہے جو بالعموم پورے مسلم معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔ جہیز  سمیت شادی بیاہ کی تمام تر اسلام مخالف مشرکانہ و ہندوانہ رسوم و روائج کےخاتمے اور نکاح کے حکم الله کی تعمیل سنت طریقے پر رائج کرنے کی کوشش کرنا ہر فرد کا مقدس فریضہ ہے اور یہ بھی ایک جہاد کی طرح ہے۔ کوئی مالدار باپ اپنی بیٹی کو تحفے میں کچھ دینا چاہے تو دلہا والوں کی خواہش و تقاضے کے بغیر، رضاکارانہ طور پر اپنی خوشی سے شادی کے بعد، کسی بھی وقت خاموشی کے ساتھ اپنی بیٹی کو غیر اعلانیہ طور پر چپکے سے دے سکتا ہے تب تو جائز ہے ورنہ نہیں کیونکہ اسکو شادی کا لازمی جزو سمجھ کر انجام دینے اور اس کے اظہار و اعلان اور نمود و نمائش کرنے سے کروڑوں غریبوں کی بیٹیاں نکاح سے محروم رہ جاتی ہیں یا ان کے والدین کو اپنے گھر بار، اثاثے فروخت کر کے یا پھر سودی قرض لے کر اپنی بیٹیوں کی شادیاں کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، حالانکہ سودی لین دین کے معاملات الله تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللّٰه عليه و آله و سلم کے ساتھ جنگ کرنے کے مصداق و مماثل خوفناک و خطرناک جرم و گناہ اور حرام و بدترین عمل ہے۔ الله کا واسطہ دین کو نہیں بلکہ خود کو بدلیے اور عقل سلیم و فہم و شعور کو بروئے کار لائیے!
 کلین اپ کر کے ، مذہبی کرپشن سمیت ہر طرح کی کرپشن کی جڑیں کاٹنا انتہائی ضروری ہے!
بلاشبہ کرپشن ایک معاشرتی ناسور ہے، اس حقیقت سے سرِ مو انحراف بھی سورج کی روشنی کا انکار کرنے کے مترادف ہے کہ ہر طرح کے تمام تر جرائم، کرپشن کی کوکھ سے جنم لیتے اور اسی کے سائے تلے پروان چڑھتے ہیں، جبکہ کرپشن کی بنیادی وجہ دین سے دوری ، راہِ ھدایت "صراطِ مستقیم "سے بھٹک جانا ہے اور اس گمراہی و بے راہ روی کا اصل سبب مذہبی کرپشن ( فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت) ہے اور اس فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت کا باعث نام نہاد مذہبی پیشوا ہیں جنہوں نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل، ذاتی اغراض و مقاصد، مالی و مادی منفعت، معاشی، معاشرتی، سیاسی مقاصد کے حصول و تحفظ کی خاطر، اپنی اپنی پسند کے من گھڑت اور خود ساختہ برانڈیڈ اسلامی مذاہب متعارف کروا کے لوگوں کو اصل دینِ اسلام (قرآن و سنّۃ، اسوۃ الحسنہ اور صحابہءِ کرام کے طرزِ عمل سے بیگانہ کر دیا ہے اوردینِ اسلام اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہءِ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی اطاعت و اتباع سے ہٹا کران کی تعلیمات و احکامات کے برعکس اپنے اپنے فرقوں کے اکابرین کی پیروی پر لگا رکھا ہے، چنانچہ سب سے پہلے فرقہ پرستی کی جڑیں کاٹنے، بیخ کنی اور اس بدترین مذہبی کرپشن کا مکمل سدِّ باب کرنے کیلئے مؤثر آپریشن کلین اپ کرنے کی فوری اور اژّد ترین ضرورت ہے۔ اس کے بغیر دیگر اقسام کی کرپشن کے مؤثر تدارک اوراس پر قابو پانے سمیت کسی بھی قسم کی اصلاح احوال کا خواب دیکھنا بالکل بےسود و عبث ہے. ہرظالم اور ظلم، ناانصافی اور حق تلفی نیز ہرطرح کی مذہبی و دیگر اقسام کی کرپشن کے خلاف حق اور سچ کی آواز بلند کرنا جہاد جبکہ خاموشی بزدلی، بے ایمانی و بد دیانتی، بےحسی و منافقت ہے جو ان سنگین ترین جرائم کی بیخ کنی کے بجائے ان میں اضافے، حوصلہ افزائی و معاونت کرنے کے مترادف قومی و معاشرتی جرم، گناہِ عظیم ہے، اب تک ہم سب بھی اس مجرمانہ غفلت کے مرتکب رہے ہیں لیکن اب بہت ضروری ہے کہ قوم و ملک کے وسیع تر و بہترین مفاد میں ، ہر طرح کی کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ہر ادارہ اپنا اپنا اور ہم سب اپنا اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ ہر پاکستانی کو اس کے جائز، آئینی و قانونی اور بنیادی و انسانی حقوق کی مساویانہ طور پر فراہمی نیز حصول و تحفظ کو بہر صورت یقینی بنایا ئے۔ اسلامی دفعات و شقوں اور شہریوں کے بنیادی و انسانی حقوق سے متعلقہ دفعات اور شقوں سمیت ، پورے کے پورے آئینِ پاکستان کو مکمّل طور پر اس کی اصل روح کے مطابق نافذ کیا جائے۔ قوم و ملک کے بہترین اور وسیع تر مفاد میں فوج سمیت تمام ادارے ، محکمے اور معاشرے کے تمام طبقات اپنے اپنے آئینی دائرہءِ کار کے اندر رہتے ہوئے پوری فرض شناسی، ایمانداری، دیانتداری اور کامل اخلاص کے ساتھ فرائضِ منصبی سرانجام دیں اور مذہبی کرپشن سمیت ہر طرح کی پرپشن کا قلع قمع کرنے میں ایک دوسرے کا بھر پور ساتھ دیں۔

  ماضی کے مارشل لاؤں سے سبق سیکھنا چاہیئے! کہ کیا وطنِ عزیز سے کرپشن کا خاتمہ کردیا تھا یا کہ اس میں کئی گنا اضافے کا سبب ثابت ہوئے تھے؟ کرپشن کیا صرف سولین پاکستانی ہی کرتے ہیں؟ کیا ہر ایک فوجی صالح و متّقی یا فرشتہ صفت اور ہر سولین شیطانی اوصاف کا حامل ہے؟ یا پھر اچھے برے انسان معاشرے کے ہر طبقے اورملک کے ہر چھوٹے بڑے  ادارے میں ضرور موجود ھوتے ہیں؟ سولین پاکستانیوں اور ملک کے سول  اداروں اور محکموں سے کرپشن کا خاتمہ کیا  فوج کا کام ہے؟ کیا فوجی قیادت کو افواجِ پاکستان اور ان کے ماتحت اداروں سے کرپشن  کے مکمّل خاتمے کو یقینی بنانے کا کام نہیں کرنا چاہیئے؟ ملک کے سولین اداروں، محکموں اور معاشرے کے تمام طبقات سمیت سیاست و ریاستِ پاکستان سے کرپشن کی اس لعنت سے نجات کا حصول کیاعوام کی منتخب جمہوری حکومت، عدلیہ اور ہم سب کی مشترکہ ذمّہ داری نہیں ہے؟ ہم تو کرپٹ ترین عناصر کو اپنا سیاسی قائد مانیں انہی کو "بڑا آدمی" سمجھیں انہی کو بار بار ووٹ دے کر منتخب کریں اور ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دیتے رہیں اور فوج سے مطالبہ کریں کہ سولین کرپٹ عناصر کو کیفرِ کردار تک پہنچائے، کیا یہ کھلا تضاد، حماقت و منافقت نہیں۔ فوج نے منتخب عوامی و جمہوری حکومت کی  مرضی اور حمایت کے بغیر اگر کبھی ایسا کوئی قدم اٹھایا تو عوام الناس کی بڑی اکثریت نے پھر پلٹ ان ہی مفاد پرست، خود غرض، کرپٹ، عادی جرائم پیشہ  عناصر کی سپّورٹ میں پرتشدد احتجاج کیلئے اٹھ کھڑے ہونا ہے (کیوں کہ زیادہ  لوگ ایسے عناصرکو ہی "بڑا آدمی"  مانتے ہیں) خاکم  نتیجتاً بدہن! ملک میں انارکی پیدا کرنے کا دشمن کا دیرینہ خواب پورا ہو جانا ہے۔  
 ہماری مسلح افواج کو (جن پر کہ ہمیں بجا طور پر فخرہے) سیاسی دنگل میں حصّہ دار ی پر اکسانے والے عناصر، دراصل اپنی غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے ہر اچھے عمل کا کریڈٹ صرف اور صرف افواجِ پاکستان کی اعلٰی کمان کودینے اور ہر برے کام کا ذمّہ دار فقط قومی سیاسی قیادت کو قرار دے دیتے ہیں جو کہ دیانتدارانہ  و منصفانہ طرزِ ِ فکر و عمل نہیں ہے۔ چاپلوسی اور خوشامد کے ایکسپرٹ چند عناصر قوم کو کنفیوژن میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، یہ نادان عناصر اگر مسلح افواج کو متنازع بنا کر پاکستان دشمنوں کو خوش کرنے کی گھناؤنی سازشوں سے باز نہیں آتے تو ہمیں ان کے مذموم عزائم کو بے نقاب ضرور کرتے رہنا چاہئے  یہ بھی  اس وقت  حبّ الوطنی کا ایک اہم  تقاضہ ہے۔  بہت ضروری ہے کہ ہر ادارہ اپنے اپنے آئینی دائرہءِ کار کے اندر یکسو رہتے ہوئے اپنے اپنے فرائضِ منصبی کو پوری ایمانداری، دیانتداری اور فرض شناسی کے ساتھ انجام دے ۔   ھمیں بہرصورت یاد رکھنا چاہیئے کہ مسلّح افواج اورنیشنل سیکورٹی کے ادارے، انٹیلیجنس ایجنسیز ہر ملک میں ہوتی ہیں  اورانڈیا سمیت دنیا کے اکثرو بیشتر ممالک میں وہ اپنے آئینی دائرہءِ کاراورقانونی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے، سول حکومتوں کی ماتحتی میں ہی اپنے فرائضِ منصبی سرانجام دیتی ہیں اور یہ عمل پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کی ترقی، استحکام، قومی سلامتی اور وقار کے لئے نہایت ضروری بھی ہوتا ہے۔  بد قسمتی سے ہمارے ملک و معاشرے میں بعض  ایسے عاقبت نا اندیش عناصر  پر مشتمل ایک لابی ایسی بھی موجود رہتی ہے  جو کسی بھی بہانے پاکستان کی قابلِ فخر، جرأتمند، بہادر اور محبِّ وطن مسلح افواج  کی توجّہ ان کے اصل (آئینی) فرائضِ منصبی اور پیشہ وارانہ ذمّہ داریوں سے  ہٹانے اور ان کو   سیاسی معاملات میں گھسیٹنے کی مذموم و مکروہ سازشوں میں مصروفِ عمل ہیں ،  ایسے عاقبت نا اندیش عناصر ہماری مسلح افواج کو متنازع بنا کر ، دراصل پاکستان کے دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے عناصر کی ہر سطح پر سخت ترین  مذمّت اور حوصلہ شکنی پاکستان کے ہر محبّ وطن شہری کا فرض ہے، کیونکہ آج ہر پاکستانی اپنی مسلّح افواج پر فخر کرتا ہے اور پوری  پاکستانی قوم متحد  ہو کر ، دل و جان سے اپنی افواج  کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے خدا نخواستہ فوج نے سیاسی اقتدار پر غیر آئینی تسلّط جمانے کی کوشش کی تو قوم تقسیم ہو جائے گی،   عوام النّاس کی واضح اکثریت   اگرچہ کہ سیاسی قیادت کی کرپشن اور ناقص کارکردگی سے نالاں ضرور ہے  مگر ایسے کسی بھی غیر آئینی عمل کی حمایت ہرگز نہیں کرے گی اور نہ ہی کرنی چاہیئے۔   ملک اس وقت نازک ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ اس وقت پوری پاکستانی  قوم کا متحد و منظم ہو کر متفقہ طور پر بدستور اپنی مسلّح افواج کی دل و جان سے حمایت جاری رکھنا انتہائی ضروری ہے