تاریخ کے مطالعے سے اس حقیقت کے بے شمار اور ناقابل تردید شواہد و ثبوت ملتے ہیں کہ دنیا میں آج تک جن جن بھی اقوام و ریاستوں نے قومی، سائنسی، تخلیقی، علمی، معاشی، تحقیقی، صنعت و حرفت، ایجادات اور دیگر تمام تر شعبہ ہائے زندگی میں تعمیر و ترقی کی منازل طے کر کے عالم انسانیت میں اپنا نمایاں مقام بنایا ہے وہ کسی بھی غیر ملکی زبان کی مدد سے نہیں بلکہ اپنی مقامی و قومی زبان کو اختیار کرنے کی وجہ سے ہی اقوام عالم میں وہ بلند مقام و مرتبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
دوسری جانب ہم فرنگی کی غلامی کے طوق کو ہی اپنا مقدر بنائے رکھنے پر بضد ہیں اور اپنی قومی زبان کو غیر ملکی زبان کے مقابلے میں ذرا سی بھی اہمیت نہیں دیتے، فرقہ بندی و فرقہ پرستی کی طرح ہم انگریزی زبان کی لعنت سے بھی نجات حاصل کر کے اور قرآن و سنة کے آفاقی و بے مثال احکامات، ہدایات، تعلیمات اور فرمودات کی تعمیل و اطاعت اور اتباع و پیروی اختیار کرنے اور اپنی قومی زبان کو بدیسی زبان پر اولین ترجیح س فوقیت دے کر اپنی نسلوں کو عقل و شعور، فہم و فراست اور قومی تعمیر و ترقی سے کی راہوں سے دور کرنے پر مصر ہیں اور دہائی میں پچھلے عرصے سے کہیں زیادہ سنگین مسائل کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔
لله عقل کے ناخن لیجئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس متفقہ آئین کا ہی کچھ تو احترام کر لیجئے جس کا حلف اٹھا کر آپ ریاست کے کسی بھی ستون کے سربراہ بنتے ہیں اور حلفاً اقرار و عہد کرتے ہیں کہ اس ایین کی حفاظت و تنفیذ اور تعظیم و توقیر اور ائین پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد کو بہر صورت یقینی بنائیں گے، اس آئین کے تحت ریاست کے ہر ادارے میں مکمل طور پر قومی زبان اردو کا نفاذ کرنے کےلیے زیادہ سے زیادہ پچیس سال کی مدت مقرر کی گئی ہے، بعد از آں قومی زبان اردو کے نفاذ کےلیے عدالت عظمٰی کے فیصلے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں لیکن افسوس صد افسوس کے فرنگی کی ذہنی غلامی کے جنون میں گرفتار حکمران اور ریاستی و آئینی اداروں کے سربراہان و دیگر حلف بردار عناصر اپنے حلفیہ عہد و اقرار اور عزم کو فراموش کر کے نہ صرف آئین کو پامال کر رہے ہیں بلکہ عدالت عظمٰی کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کر کے توہین عدالت کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔
ضروری ہے کہ اس حوالے سے قومی زبان اردو کے نفاذ کےلیے منظم، مؤثر اور بامقصد و نتیجہ خیز تحریک چلائی جائے اور بغرض مذکورہ عدالت عظمٰی میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر کے اس کی باقاعدہ پیروی کی جائے۔
دوسری جانب ہم فرنگی کی غلامی کے طوق کو ہی اپنا مقدر بنائے رکھنے پر بضد ہیں اور اپنی قومی زبان کو غیر ملکی زبان کے مقابلے میں ذرا سی بھی اہمیت نہیں دیتے، فرقہ بندی و فرقہ پرستی کی طرح ہم انگریزی زبان کی لعنت سے بھی نجات حاصل کر کے اور قرآن و سنة کے آفاقی و بے مثال احکامات، ہدایات، تعلیمات اور فرمودات کی تعمیل و اطاعت اور اتباع و پیروی اختیار کرنے اور اپنی قومی زبان کو بدیسی زبان پر اولین ترجیح س فوقیت دے کر اپنی نسلوں کو عقل و شعور، فہم و فراست اور قومی تعمیر و ترقی سے کی راہوں سے دور کرنے پر مصر ہیں اور دہائی میں پچھلے عرصے سے کہیں زیادہ سنگین مسائل کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔
لله عقل کے ناخن لیجئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس متفقہ آئین کا ہی کچھ تو احترام کر لیجئے جس کا حلف اٹھا کر آپ ریاست کے کسی بھی ستون کے سربراہ بنتے ہیں اور حلفاً اقرار و عہد کرتے ہیں کہ اس ایین کی حفاظت و تنفیذ اور تعظیم و توقیر اور ائین پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد کو بہر صورت یقینی بنائیں گے، اس آئین کے تحت ریاست کے ہر ادارے میں مکمل طور پر قومی زبان اردو کا نفاذ کرنے کےلیے زیادہ سے زیادہ پچیس سال کی مدت مقرر کی گئی ہے، بعد از آں قومی زبان اردو کے نفاذ کےلیے عدالت عظمٰی کے فیصلے بھی ریکارڈ پر موجود ہیں لیکن افسوس صد افسوس کے فرنگی کی ذہنی غلامی کے جنون میں گرفتار حکمران اور ریاستی و آئینی اداروں کے سربراہان و دیگر حلف بردار عناصر اپنے حلفیہ عہد و اقرار اور عزم کو فراموش کر کے نہ صرف آئین کو پامال کر رہے ہیں بلکہ عدالت عظمٰی کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کر کے توہین عدالت کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں۔
ضروری ہے کہ اس حوالے سے قومی زبان اردو کے نفاذ کےلیے منظم، مؤثر اور بامقصد و نتیجہ خیز تحریک چلائی جائے اور بغرض مذکورہ عدالت عظمٰی میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر کے اس کی باقاعدہ پیروی کی جائے۔
No comments:
Post a Comment