بسم
الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
تمام تر جرائم، کرپشن
کی کوکھ سے جنم لیتے اور اسی کے سائے تلے پروان چڑھتے ہیں
تحریر: پرویز اقبال آرائیں
قوم و ملک کے بہترین
اور وسیع تر مفاد میں *"طلبِ جہیز ایک سنگین گناہ و سنگین جرم، بدترین لعنت اور معاشرتی ناسور ہے"*
ناجائز کام میں معاونت بھی ناجائز و گناہ ہے۔ کسی اسلامی و دینی فریضے کی غیر اسلامی اورحرام و ناجائز طریقے سے بجا آوری کیا معنٰی رکھتی ہے؟ اسلام مخالف ناجائز و حرام رسوم و رواج اور طور و طریقے کے تحت کوئی اسلامی فرض کس طرح انجام پا سکتا ہے؟ دلہے کو ڈھول کی تھاپ اور شہنا ئیوں کی گونج میں مسجد لے جا کر سلام کروانے کی رسم، غیر محرم جوان لڑکے اور لڑکیوں کا مخلوط محفل میں رقص اور مجرا، ڈانڈیاں کھیلنا، مہندی و مایوں کی رسومات اور ان مواقع پر مخوط مجالس ،جہیز کا لین دین، لڑکی والوں کی طرف سے باراتیوں اور دلہا والوں کی پر تکلف ضیافت اور رشتے داروں کو تحائف کا مطالبہ وغیرہ کیا دین اسلام سے کھلی بغاوت نہیں؟ اگر ایسا کرنا صحیح ہے تو پھر بغیر وضو اور بغیر لباس صلٰوۃ ادا کرنا اور ہر رکعت میں ایک یا تین سجدے کرنا اور ہر رکعت میں ایک فون کال سن لینا یا خود کال کر لینا یا تھوڑا ڈانس کر لینا اور پوری صلٰوۃ ادا کر کے آخر میں فقط ایک ہی طرف بار سلام پھیرنا یا ہر رکعت میں سلام پھیرنا یا ظہر کی تین، عصر کی پانچ، رکعتیں پڑھ کر صلٰوۃ ادا کرنا بھی جائز ہی ہونا چاہیے مگر ہم میں سے کوئی بھی ایسا کرتا ہے اور نہ اسے درست و جائز عمل کے طور پر قبول و تسلیم کرنے پر آمادہ ہو سکتا ہے تو پھر نکاح کے حکم الله و سنت رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم سمیت باقی اسلامی فرائض اور احکامات کی تعمیل من مانے، من پسند، من گھڑت، بے بنیاد، ناجائز و حرام اور ممنوع و غیر اسلامی طریقوں سے کس طرح جائز و درست مانی جا سکتی ہے؟؟؟ جہیز کا لینا اور دینا ناجائز اور حرام ہے، شادی بیاہ کا مروجّہ طریقہ اور رسم و رواج مشرکانہ و ہندوانہ، ناجائز و حرام ہیں، ان کے تحت انجام پانے والی شادی اور عقود و نکاح کی شرعی حیثیث متنازع ہے اس میں خیر و برکت تو بعد کی باتیں ہیں پہلے تو اسکا انعقاد ہی مشکوک و متنازع ہے۔ اس طرح کی شادیاں اسلام کے بنیادی احکامات و ہدایات، تعلیمات و فرمودات اور پیغامات کی مخالفت کرنے اور ان کا مذاق اُڑانے کے مصداق و مماثل حرام عمل اور معاشرتی لعنت و ناسور ہے جو بالعموم پورے مسلم معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔ جہیز سمیت شادی بیاہ کی تمام تر اسلام مخالف مشرکانہ و ہندوانہ رسوم و روائج کےخاتمے اور نکاح کے حکم الله کی تعمیل سنت طریقے پر رائج کرنے کی کوشش کرنا ہر فرد کا مقدس فریضہ ہے اور یہ بھی ایک جہاد کی طرح ہے۔ کوئی مالدار باپ اپنی بیٹی کو تحفے میں کچھ دینا چاہے تو دلہا والوں کی خواہش و تقاضے کے بغیر، رضاکارانہ طور پر اپنی خوشی سے شادی کے بعد، کسی بھی وقت خاموشی کے ساتھ اپنی بیٹی کو غیر اعلانیہ طور پر چپکے سے دے سکتا ہے تب تو جائز ہے ورنہ نہیں کیونکہ اسکو شادی کا لازمی جزو سمجھ کر انجام دینے اور اس کے اظہار و اعلان اور نمود و نمائش کرنے سے کروڑوں غریبوں کی بیٹیاں نکاح سے محروم رہ جاتی ہیں یا ان کے والدین کو اپنے گھر بار، اثاثے فروخت کر کے یا پھر سودی قرض لے کر اپنی بیٹیوں کی شادیاں کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، حالانکہ سودی لین دین کے معاملات الله تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللّٰه عليه و آله و سلم کے ساتھ جنگ کرنے کے مصداق و مماثل خوفناک و خطرناک جرم و گناہ اور حرام و بدترین عمل ہے۔ الله کا واسطہ دین کو نہیں بلکہ خود کو بدلیے اور عقل سلیم و فہم و شعور کو بروئے کار لائیے! کلین اپ کر کے ، مذہبی کرپشن سمیت ہر طرح کی کرپشن کی جڑیں کاٹنا انتہائی ضروری ہے!
*از قلم: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں، بانی صدر، تحریک نفاذ ائین، قرآن و سنت پاکستان*
نکاح ایک حکم الٰہی ہے، رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم کی سنت ہے، قرآن و سنت کے احکامات کی روشنی میں نکاح مجموعی طور پر صرف 6 چھ چیزوں کے مجموعے کا نام ہے، جس میں میں دو فرائض، ایک واجب اور تین سنتیں شامل ہیں، فرائض میں دو گواہان کی موجودگی اور دلہے و دلہن کا ایجاب و قبول شامل ہیں، تیسری چیز حق مہر ہے جو کہ واجب ہے، خطبہءنکاح، کھجور یا چھوہارے یا کوئی شیرینی وغیرہ نکاح کے موقع پر موجود حاضرین میں بانٹنا اور رخصتی و ہمبستری کے بعد اگلے دنوں میں دلہے کی طرف سے بعض اعزاء و اقرباء اور چند مساکین کو ولیمے کی ضیافت کا اہتمام کرنا یہ تینوں چیزیں سنت ہیں۔
دلہے والے اگر بارات کو نکاح کے موقع پر کھانا کھلانا چاہیں تو وہ اپنے طور پر اپنے خرچے سے اس کا اھتمام کر سکتے ہیں، دلہن والوں کے خرچ پر پکایا گیا کھانا دلہے، اس کے افراد خاندان، دوست و احباب یعنی باراتیوں کو کھانا جائز نہیں ہے۔
جہیز بنیادی طور پر ایک خلافِ اسلام، غیر شرعی، غیر انسانی و غیر اخلاقی معاشرتی رسم ہے کہ مسلمانوں میں جو ہندوؤں کے ہاں سے در آئی ہے۔ خود ان کے ہاں بھی اسے معیوب گردانا جاتا ہے اور اس کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے مگر افسوس صد افسوس کہ بد قسمتی سے ہمارے یہاں (مسلمان معاشرے میں) یہ حرام رسم ایک بد ترین لعنت اور معاشرتی ناسور بن چُکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں کہ سسرالیوں نے اپنی بہو کو، شوہر نے اپنی دلہن کو کم جہیز لانے پر مٹی کا تیل، پیٹرول، تیزاب چھڑک کر جلا دیا، جان سے مار دیا، پنکھے سے لٹکا کر، پھانسی یا پھندا لگا کر ہلاک کر دیا، تیز دھار آلے/ چھریوں کے وار کر کے قتل کر دیا اور اسے خود کشی کا رنگ دینے کےلیے ڈھونگ رچایا وغیرہ! کیونکہ مقتولہ کم جہیز لائی تھی۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
پھر بہو جلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے
پہلے اپنے آنگن میں بیٹیاں جلا دینا!
اسلام (قرآن و سُنَّۃ) کے احکامات و ہدایات، پیغامات و فرمودات اور تعلیمات میں کہیں بھی جہیز کو پسندیدہ سمجھا گیا ہے اور نہ ہی اس کو جائز و ضروری قرار دیا گیا ہے بلکہ طلب و تقاضہءِ جہیز کی رائج الوقت رسم کو، اِسلامی احکامات و تعلیمات کے صریحًا خلاف اور اُن سے انحراف و روگردانی کے مصداق و مماثل، حرام و ناجائز عمل قرار دیا گیا ہے قبل از اسلام، دورِ جاہلیت کے عرب معاشرے میں اس کا کوئی رواج نہ تھا۔ گویا کہ یہ دور جاہلیت میں رائج برائیوں سے بھی بد ترین بُرائی ہے جسے اُس دور کے انسانوں نے بھی کبھی گوارا کیا نہ ہی روا رکھا۔
جب بَرِّصغیر (ہندوستان) میں، مسلمانوں کا سابقہ اس جاہلانہ رسم سے پڑا تو اس کے معاشرتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء دین نے اس کے جواز یا عدم جواز کے حوالے سے بات نہیں کی۔ ہمارے ہاں جہیز کا جو تصور موجود ہے، وہ واقعتاً ایک معاشرتی لعنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سارے غریب گھرانوں کی معصوم لڑکیوں اور ان کے اہل خانہ پر سنگین ظلم ہوتا ہے۔
اگر کوئی ماں باپ، شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کو کچھ دینا چاہیں، تو یہ ان کی صوابدید و مرضی ہے اور یہ امر جائز ہے بشرطیکہ اس کا اعلان کیا جائے نہ ہی نمود و نمائش اور اظہار عام ہو، تاہم لڑکے والوں کو مطالبے کا کوئی حق و اختیار مطلقاً حاصل نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رسول الله صلى الله عليه و آلہ و سلم نے بھی تو اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمة الزہرہ رضی الله تعالٰی عنہا کو جہیز دیا تھا یہ ایک غلط فہمی کی بناء پر پھیلایا جانے والا جھوٹ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللّٰه عليه و آله و سلم نے جو چند اشیاء ضروریہ نکاح کے موقع پر دی تھیں وہ اس وجہ سے دی تھیں کیونکہ سیدنا علی المرتضی کرم الله وجهه الكريم، حضور عليه الصلاة والسلام کے چچا اور سیدنا علی ابن ابی طالب رضی الله تعالٰی عنہ کے والد گرامی کی رحلت کے بعد سے حضرت علی رضی الله تعالٰی عنہ، نبی کریم ﷺ کی کفالت میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہی ان کی پرورش کی تھی۔ اپنی پیاری صاحبزادی کے ساتھ ان کی شادی کے بعد انہیں الگ مکان میں رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی تو انہیں انتہائی ضرورت کی چند اشیاء حضرت علی کو عطا فرمائی تھیں یوں سمجھ لیجیے کہ آپ نے اپنے زیر کفالت پرورش پانے والے اپنے چچا زاد بھائی کو کچھ سامان دیا تھا کیونکہ یہ وہ بھی حضرت بی بی فاطمہ کی طرح آپ صلی اللّٰه عليه و آله و سلم کے هى زیر کفالت رہے تھے۔ یہ حقائق اس بات سے بھی بخوبی سمجھے جا سکتے ہیں کہ آپ صلی الله عليه و آله و سلم نے اپنے دیگر دامادوں سیدنا ابو العاص اور عثمان رضی الله عنہما کے ساتھ شادیاں کرتے وقت اپنی بیٹیوں کو کوئی بھی چیز جہیز میں نہیں دیی تھی۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جہیز دینے کے بعد بھی کسی صورت بھی کسی لڑکی کاحق وراثت ہرگز ختم نہیں ہوتا ہے۔ وراثت کا قانون الله تعالٰی کے واضح سے لیا گیا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر شدید وعید سنائی گئی ہے۔ جہیز اگر لڑکی کا والد اپنی مرضی سے دے تو اس کی حیثیت اس تحفے کی سی ہے جو باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔لیکن اس میں اسراف و تبذیر اس کے اعلان و اظہار اور نمود و نمائش سے گریز کرنا ضروری ہے۔
ناجائز کام میں معاونت بھی ناجائز و گناہ ہے۔ کسی اسلامی و دینی فریضے کی غیر اسلامی اورحرام و ناجائز طریقے سے بجا آوری کیا معنٰی رکھتی ہے؟ اسلام مخالف ناجائز و حرام رسوم و رواج اور طور و طریقے کے تحت کوئی اسلامی فرض کس طرح انجام پا سکتا ہے؟ دلہے کو ڈھول کی تھاپ اور شہنا ئیوں کی گونج میں مسجد لے جا کر سلام کروانے کی رسم، غیر محرم جوان لڑکے اور لڑکیوں کا مخلوط محفل میں رقص اور مجرا، ڈانڈیاں کھیلنا، مہندی و مایوں کی رسومات اور ان مواقع پر مخوط مجالس ،جہیز کا لین دین، لڑکی والوں کی طرف سے باراتیوں اور دلہا والوں کی پر تکلف ضیافت اور رشتے داروں کو تحائف کا مطالبہ وغیرہ کیا دین اسلام سے کھلی بغاوت نہیں؟ اگر ایسا کرنا صحیح ہے تو پھر بغیر وضو اور بغیر لباس صلٰوۃ ادا کرنا اور ہر رکعت میں ایک یا تین سجدے کرنا اور ہر رکعت میں ایک فون کال سن لینا یا خود کال کر لینا یا تھوڑا ڈانس کر لینا اور پوری صلٰوۃ ادا کر کے آخر میں فقط ایک ہی طرف بار سلام پھیرنا یا ہر رکعت میں سلام پھیرنا یا ظہر کی تین، عصر کی پانچ، رکعتیں پڑھ کر صلٰوۃ ادا کرنا بھی جائز ہی ہونا چاہیے مگر ہم میں سے کوئی بھی ایسا کرتا ہے اور نہ اسے درست و جائز عمل کے طور پر قبول و تسلیم کرنے پر آمادہ ہو سکتا ہے تو پھر نکاح کے حکم الله و سنت رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم سمیت باقی اسلامی فرائض اور احکامات کی تعمیل من مانے، من پسند، من گھڑت، بے بنیاد، ناجائز و حرام اور ممنوع و غیر اسلامی طریقوں سے کس طرح جائز و درست مانی جا سکتی ہے؟؟؟ جہیز کا لینا اور دینا ناجائز اور حرام ہے، شادی بیاہ کا مروجّہ طریقہ اور رسم و رواج مشرکانہ و ہندوانہ، ناجائز و حرام ہیں، ان کے تحت انجام پانے والی شادی اور عقود و نکاح کی شرعی حیثیث متنازع ہے اس میں خیر و برکت تو بعد کی باتیں ہیں پہلے تو اسکا انعقاد ہی مشکوک و متنازع ہے۔ اس طرح کی شادیاں اسلام کے بنیادی احکامات و ہدایات، تعلیمات و فرمودات اور پیغامات کی مخالفت کرنے اور ان کا مذاق اُڑانے کے مصداق و مماثل حرام عمل اور معاشرتی لعنت و ناسور ہے جو بالعموم پورے مسلم معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کر چکا ہے۔ جہیز سمیت شادی بیاہ کی تمام تر اسلام مخالف مشرکانہ و ہندوانہ رسوم و روائج کےخاتمے اور نکاح کے حکم الله کی تعمیل سنت طریقے پر رائج کرنے کی کوشش کرنا ہر فرد کا مقدس فریضہ ہے اور یہ بھی ایک جہاد کی طرح ہے۔ کوئی مالدار باپ اپنی بیٹی کو تحفے میں کچھ دینا چاہے تو دلہا والوں کی خواہش و تقاضے کے بغیر، رضاکارانہ طور پر اپنی خوشی سے شادی کے بعد، کسی بھی وقت خاموشی کے ساتھ اپنی بیٹی کو غیر اعلانیہ طور پر چپکے سے دے سکتا ہے تب تو جائز ہے ورنہ نہیں کیونکہ اسکو شادی کا لازمی جزو سمجھ کر انجام دینے اور اس کے اظہار و اعلان اور نمود و نمائش کرنے سے کروڑوں غریبوں کی بیٹیاں نکاح سے محروم رہ جاتی ہیں یا ان کے والدین کو اپنے گھر بار، اثاثے فروخت کر کے یا پھر سودی قرض لے کر اپنی بیٹیوں کی شادیاں کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے، حالانکہ سودی لین دین کے معاملات الله تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللّٰه عليه و آله و سلم کے ساتھ جنگ کرنے کے مصداق و مماثل خوفناک و خطرناک جرم و گناہ اور حرام و بدترین عمل ہے۔ الله کا واسطہ دین کو نہیں بلکہ خود کو بدلیے اور عقل سلیم و فہم و شعور کو بروئے کار لائیے! کلین اپ کر کے ، مذہبی کرپشن سمیت ہر طرح کی کرپشن کی جڑیں کاٹنا انتہائی ضروری ہے!
بلاشبہ کرپشن ایک
معاشرتی ناسور ہے، اس حقیقت سے سرِ مو انحراف بھی سورج کی روشنی کا انکار کرنے کے
مترادف ہے کہ ہر طرح کے تمام تر جرائم، کرپشن کی کوکھ سے جنم لیتے اور اسی کے سائے
تلے پروان چڑھتے ہیں، جبکہ کرپشن کی بنیادی وجہ دین سے دوری ، راہِ ھدایت
"صراطِ مستقیم "سے بھٹک جانا ہے اور اس گمراہی و بے راہ روی کا اصل سبب
مذہبی کرپشن ( فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت) ہے اور اس فرقہ پرستی اور مذہبی
منافرت کا باعث نام نہاد مذہبی پیشوا ہیں جنہوں نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل،
ذاتی اغراض و مقاصد، مالی و مادی منفعت، معاشی، معاشرتی، سیاسی مقاصد کے حصول و
تحفظ کی خاطر، اپنی اپنی پسند کے من گھڑت اور خود ساختہ برانڈیڈ اسلامی مذاہب
متعارف کروا کے لوگوں کو اصل دینِ اسلام (قرآن و سنّۃ، اسوۃ الحسنہ اور صحابہءِ
کرام کے طرزِ عمل سے بیگانہ کر دیا ہے اوردینِ اسلام اور رسول اللہ ﷺ اور صحابہءِ
کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی اطاعت و اتباع سے ہٹا کران کی تعلیمات و
احکامات کے برعکس اپنے اپنے فرقوں کے اکابرین کی پیروی پر لگا رکھا ہے، چنانچہ سب
سے پہلے فرقہ پرستی کی جڑیں کاٹنے، بیخ کنی اور اس بدترین مذہبی کرپشن کا مکمل
سدِّ باب کرنے کیلئے مؤثر آپریشن کلین اپ کرنے کی فوری اور اژّد ترین ضرورت ہے۔ اس
کے بغیر دیگر اقسام کی کرپشن کے مؤثر تدارک اوراس پر قابو پانے سمیت کسی بھی قسم
کی اصلاح احوال کا خواب دیکھنا بالکل بےسود و عبث ہے. ہرظالم اور ظلم، ناانصافی
اور حق تلفی نیز ہرطرح کی مذہبی و دیگر اقسام کی کرپشن کے خلاف حق اور سچ کی آواز
بلند کرنا جہاد جبکہ خاموشی بزدلی، بے ایمانی و بد دیانتی، بےحسی و منافقت ہے جو
ان سنگین ترین جرائم کی بیخ کنی کے بجائے ان میں اضافے، حوصلہ افزائی و معاونت
کرنے کے مترادف قومی و معاشرتی جرم، گناہِ عظیم ہے، اب تک ہم سب بھی اس مجرمانہ
غفلت کے مرتکب رہے ہیں لیکن اب بہت ضروری ہے کہ قوم و ملک کے وسیع تر و بہترین
مفاد میں ، ہر طرح کی کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ہر ادارہ اپنا اپنا اور ہم
سب اپنا اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔ ہر پاکستانی کو اس کے جائز، آئینی و قانونی اور
بنیادی و انسانی حقوق کی مساویانہ طور پر فراہمی نیز حصول و تحفظ کو بہر صورت
یقینی بنایا ئے۔ اسلامی دفعات و شقوں اور شہریوں کے بنیادی و انسانی حقوق سے
متعلقہ دفعات اور شقوں سمیت ، پورے کے پورے آئینِ پاکستان کو مکمّل طور پر اس کی
اصل روح کے مطابق نافذ کیا جائے۔ قوم و ملک کے بہترین اور وسیع تر مفاد میں فوج
سمیت تمام ادارے ، محکمے اور معاشرے کے تمام طبقات اپنے اپنے آئینی دائرہءِ کار کے
اندر رہتے ہوئے پوری فرض شناسی، ایمانداری، دیانتداری اور کامل اخلاص کے ساتھ
فرائضِ منصبی سرانجام دیں اور مذہبی کرپشن سمیت ہر طرح کی پرپشن کا قلع قمع کرنے
میں ایک دوسرے کا بھر پور ساتھ دیں۔
ماضی کے مارشل لاؤں
سے سبق سیکھنا چاہیئے! کہ کیا وطنِ عزیز سے کرپشن کا خاتمہ کردیا تھا یا کہ اس میں
کئی گنا اضافے کا سبب ثابت ہوئے تھے؟ کرپشن کیا صرف سولین پاکستانی ہی کرتے ہیں؟
کیا ہر ایک فوجی صالح و متّقی یا فرشتہ صفت اور ہر سولین شیطانی اوصاف کا حامل ہے؟
یا پھر اچھے برے انسان معاشرے کے ہر طبقے اورملک کے ہر چھوٹے بڑے ادارے میں ضرور موجود ھوتے ہیں؟ سولین
پاکستانیوں اور ملک کے سول اداروں اور
محکموں سے کرپشن کا خاتمہ کیا فوج کا کام
ہے؟ کیا فوجی قیادت کو افواجِ پاکستان اور ان کے ماتحت اداروں سے کرپشن کے مکمّل خاتمے کو یقینی بنانے کا کام نہیں
کرنا چاہیئے؟ ملک کے سولین اداروں، محکموں اور معاشرے کے تمام طبقات سمیت سیاست و
ریاستِ پاکستان سے کرپشن کی اس لعنت سے نجات کا حصول کیاعوام کی منتخب جمہوری
حکومت، عدلیہ اور ہم سب کی مشترکہ ذمّہ داری نہیں ہے؟ ہم تو کرپٹ ترین عناصر کو
اپنا سیاسی قائد مانیں انہی کو "بڑا آدمی" سمجھیں انہی کو بار بار ووٹ
دے کر منتخب کریں اور ملک کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دیتے رہیں اور فوج سے مطالبہ
کریں کہ سولین کرپٹ عناصر کو کیفرِ کردار تک پہنچائے، کیا یہ کھلا تضاد، حماقت و
منافقت نہیں۔ فوج نے منتخب عوامی و جمہوری حکومت کی مرضی اور حمایت کے بغیر اگر کبھی ایسا کوئی قدم
اٹھایا تو عوام الناس کی بڑی اکثریت نے پھر پلٹ ان ہی مفاد پرست، خود غرض، کرپٹ،
عادی جرائم پیشہ عناصر کی سپّورٹ میں
پرتشدد احتجاج کیلئے اٹھ کھڑے ہونا ہے (کیوں کہ زیادہ لوگ ایسے عناصرکو ہی "بڑا آدمی" مانتے ہیں) خاکم نتیجتاً بدہن! ملک میں انارکی پیدا کرنے کا
دشمن کا دیرینہ خواب پورا ہو جانا ہے۔
ہماری مسلح افواج کو
(جن پر کہ ہمیں بجا طور پر فخرہے) سیاسی دنگل میں حصّہ دار ی پر اکسانے والے
عناصر، دراصل اپنی غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے ہر اچھے عمل کا کریڈٹ صرف اور صرف
افواجِ پاکستان کی اعلٰی کمان کودینے اور ہر برے کام کا ذمّہ دار فقط قومی سیاسی
قیادت کو قرار دے دیتے ہیں جو کہ دیانتدارانہ
و منصفانہ طرزِ ِ فکر و عمل نہیں ہے۔ چاپلوسی اور خوشامد کے ایکسپرٹ چند
عناصر قوم کو کنفیوژن میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں، یہ نادان عناصر اگر مسلح افواج کو
متنازع بنا کر پاکستان دشمنوں کو خوش کرنے کی گھناؤنی سازشوں سے باز نہیں آتے تو
ہمیں ان کے مذموم عزائم کو بے نقاب ضرور کرتے رہنا چاہئے یہ بھی
اس وقت حبّ الوطنی کا ایک اہم تقاضہ ہے۔
بہت ضروری ہے کہ ہر ادارہ اپنے اپنے آئینی دائرہءِ کار کے اندر یکسو رہتے
ہوئے اپنے اپنے فرائضِ منصبی کو پوری ایمانداری، دیانتداری اور فرض شناسی کے ساتھ
انجام دے ۔ ھمیں بہرصورت یاد رکھنا
چاہیئے کہ مسلّح افواج اورنیشنل سیکورٹی کے ادارے، انٹیلیجنس ایجنسیز ہر ملک میں
ہوتی ہیں اورانڈیا سمیت دنیا کے اکثرو
بیشتر ممالک میں وہ اپنے آئینی دائرہءِ کاراورقانونی حدود و قیود کے اندر رہتے
ہوئے، سول حکومتوں کی ماتحتی میں ہی اپنے فرائضِ منصبی سرانجام دیتی ہیں اور یہ
عمل پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کی ترقی، استحکام، قومی سلامتی اور وقار کے لئے
نہایت ضروری بھی ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے
ہمارے ملک و معاشرے میں بعض ایسے عاقبت نا
اندیش عناصر پر مشتمل ایک لابی ایسی بھی
موجود رہتی ہے جو کسی بھی بہانے پاکستان
کی قابلِ فخر، جرأتمند، بہادر اور محبِّ وطن مسلح افواج کی توجّہ ان کے اصل (آئینی) فرائضِ منصبی اور
پیشہ وارانہ ذمّہ داریوں سے ہٹانے اور ان
کو سیاسی معاملات میں گھسیٹنے کی مذموم و
مکروہ سازشوں میں مصروفِ عمل ہیں ، ایسے
عاقبت نا اندیش عناصر ہماری مسلح افواج کو متنازع بنا کر ، دراصل پاکستان کے
دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے عناصر کی ہر سطح پر سخت ترین مذمّت اور حوصلہ شکنی پاکستان کے ہر محبّ وطن
شہری کا فرض ہے، کیونکہ آج ہر پاکستانی اپنی مسلّح افواج پر فخر کرتا ہے اور
پوری پاکستانی قوم متحد ہو کر ، دل و جان سے اپنی افواج کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے خدا نخواستہ فوج نے
سیاسی اقتدار پر غیر آئینی تسلّط جمانے کی کوشش کی تو قوم تقسیم ہو جائے گی، عوام النّاس کی واضح اکثریت اگرچہ کہ سیاسی قیادت کی کرپشن اور ناقص
کارکردگی سے نالاں ضرور ہے مگر ایسے کسی
بھی غیر آئینی عمل کی حمایت ہرگز نہیں کرے گی اور نہ ہی کرنی چاہیئے۔
ملک اس وقت نازک ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ اس وقت پوری پاکستانی قوم کا متحد و منظم ہو کر متفقہ طور پر بدستور
اپنی مسلّح افواج کی دل و جان سے حمایت جاری رکھنا انتہائی ضروری ہے