Tuesday, 18 August 2015

ہرطرح کی کرپشن کا مکمّل خاتمہ، کثیر الجہت قومی ترجیحات میں سرِ فہرست ہونا ضروری ہے۔

ہرطرح کی کرپشن کا مکمّل خاتمہ   کثیر الجہت قومی ترجیحات میں ۔سرِ فہرست ہونا ضروری ہے۔ 
اتحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں
آزادی ایک عظیم نعمت ہے اس کی قدر کریں، قدم بڑھائیں وطن کی تعمیر میں حصہ لیں! یہ وطن ہمارا ہے اس کی بنیادوں میں ہمارے آباء و اجداد کا لہو شامل ہے اور یہ انہی کی بے مثل قربانیوں کا ہی ثمر ہے، مگر افسوس کہ کرپشن کا دیمک اسکی جڑوں کو روز بروز کمزور سے کمزور تر اور کھوکھلا کرتا جا رہا ہے اس کا فوری ادارک، تدارک اور سدِّباب ناگزیر ہو چکا ہے۔
صرف مالی  کرپشن ہی نہیں، اختیارات کے غلط، ناجائز  وغیر قانونی  استعمال، فرض نا شناسی اور فرائض منصبی سے مجرمانہ غفلت، غذائی اجناس و روز مرّہ استعمال کی اشیاءِ خورد و نوش میں ملاوٹ، غیر معیاری اور مضرِ صحت اشیاء کی تیاری و فروخت،    اقربا پروری، استحقاق و میرٹ کےقتلِ عام، ،  ناجائز منافع خوری و ذخیرہ اندوزی، مال و اسباب کے لین دین اور ناپ تول میں بے ایمانی و بد دیانتی، حقوق العباد کو تلف کرنے، مذہب منافرت و فرقہ پرستی کو پھیلانے اور دین اسلام کی بنیادی تعلیمات اور صریح احکامات کے برعکس فرقہ پرستی پھلانے سمیت ہر طرح کی کرپشن بلاشبہ ایک معاشرتی ناسور ہے جس نے پورے ملک و معاشرے کی جڑیں کاٹ کر اسے کھوکھلا کردیا ہے اس لعنت کے خاتمے کے لئے معاشرے کے ہر فرد اور اسلامی جمہوریہءِ پاکستان کے ہر ایک شہری کو اپنا اپنا کردار پوری ذمّہ داری اور فرض شناسی کے ساتھ نبھانا ہو گا ورنہ ہمارے اجتماعی و انفرادی مسائل  کبھی حل نہیں ہو پائیں گے، تباہی و بربادی، تنزّلی و انحطاط، مظالم و نا انصافیاں اور حق تلفیاں اور غیر مساویانہ ناروا امتیازی سلوک ہم سب کا مقدّر بنے رہیں گے اور کرپٹ عناصر بدستور ہم پر مسلّط رہیں گے امن و استحکام، خوشحالی وترقی اور کامیابی و کامرانی کا خواب کبھی شرمندہءِ تعبیر نہیں ہونے پائے گا۔ آئندہ نسلیں بھی ہماری اس مجرمانہ غفلت کا شکار ہوتی رہیں گی۔ اب بھی وقت ہے! آؤ سب مل کر ہر سطح پر اور ہر قسم کی کرپشن کا قلع قمع کرنے کی منظم و مؤثر تحریک کا  آغاز کریں۔ قرآن و سنت پر مبنی مصطفوی نظام کا مکمل نفاذ ہی ہمارے ہر نوعیت کے تمام تر مسائل و مسائل کا مؤثر حل اور تمام تر حقوق کا محافظ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ  مجرمانہ ذہنیّت کے حامل عاقبت نا اندیش عناصر ہر پارٹی، گروہ، جماعت اور معاشرے  کے مختلف طبقات میں موجود ہو سکتے ہیں۔ ان کی ہر قسم کی منفی اور مجرمانہ سرگرمیوں کی نشان دہی اور ہر سطح پر حوصلہ شکنی و مذمّت نیز اصلاح کی کوشش کرنا، محبّ وطن شہری اور سچے و صالح مسلم کی حیثیت سے معاشرے کے ہر فرد ،بالخصوص علماءِ اسلام و مصلحین و مبلّغین کی انسانی، دینی و اسلامی ذمّہ داری بنتی ہے۔ ملزمان کے خلاف بلا تخحصیص و امتیاز، بغیر کسی تفریق کے بروقت مؤثر کاروائی کرتے ہوئے انہیں عبرت ناک، قرار واقعی سزایئں دلوانا اور ہر پاکستانی کے جان و مال اور عزّت و آبرو کو ایسے عناصر کی مجرمانہ کاورائیوں، شر انگیزیوں سے بہر صورت مکمّل تحفظ اور احساسِ تحفّظ فراہم کرنا حکومت، پارلیمنٹ اور اس کے ماتحت اداروں اور عدلیہ کی اوّلین ذمّہ داری بنتی ہے جس کی کماحقّہ بجا آوری سے غفلت و لا پرواہی یا نا اہلی و ناکامی انہیں اپنے مناصب پر برقرار رہنے کے جواز سے محروم کر دیتی ہے اور ایسی حکومت اپنا حقِّ حکمرانی کھو بیٹھتی ہے،  اسے اپنے ملک کے شہریوں سے محصولات کی ،وصولی کا کوئی اخلاقی، آئینی، قانونی انسانی، اسلامی، آئینی و قانونی حق باقی نہیں رہتا۔
اے کاش! پاکستان کے کروڑوں شہری اپنے انسانی، اسلامی، آئینی و قانونی حقوق کا شعور حاصل کرلیں اور اپنے بنیادی، جائز، انسانی، اسلامی، آئینی و قانونی، معاشی معاشرتی اور شہری حقوق و سہولیات کے حصول و تحفظ، محکومی و محرومی سے نجات، امن و انصاف، بہتر و معیاری تعلیمی و صحتِ عامّہ کی سہولیات سمیت  بنیادی انسانی ضروریات، ترقّی و خوشحالی کے حصول و تحفظ کی غرض سے، وسیع تر اور بہترین قومی و معاشرتی مفاد میں، متحد و منظم ہو جائیں، خود کو ان ظالم و بے رحم حکمرانوں کی رعایا اور عوام سمجھنے کے بجائے عوْام و خوّاص اور وی۔آئی۔پی، وی۔وی۔آئی۔پی کے کے چکر سے نکلیں، معاشرے میں   معزّز و معتبر سمجھے سمجھائے جانیوالے جعلی و ناقص اور فرسودہ معیارات کو بدلیں، فقط مال و زر، سونے، اثر و رسوخ، طاقت اور زمینداری و جاگیرداری و صنعت کاری و سرمایہ داری کو ہی معتبری کا پیمانہ و معیار نہ بنائیں بلکہ سیرت و کردار، اخلاقیات،  صلاحیت و قابلیت، اخلاص و سچائی اور کاردگی کو بھی دیکھیں اور پرکھیں۔
اس ملک کو اپنا ملک سمجھیں اور خود کو اس کے قومی وسائل میں مساوی طور پر جائز و آئینی طور پر حصّہ دار اور حقدار سمجھیں، اس عظیم وطن عزیز کو دو فیصد سے بھی کم غاصب و ظالم، بے حس و بے رحم اور رہزن عناصر کی ذاتی جاگیر و نجی ملکیت نہ مانیں، ان ناقص و نااہل، خود غرض، مفاد پرست، جرائم پیشہ، عاقبت نا اندیش، لوٹ مار کرنے والے رہنماؤں کے روپ میں نظر آنے والے رہزن بہروپیوں، بے حس و بے رحم عناصر کی چکنی چپڑی مکارانہ و عیارانہ چالوں کے فریب میں نہ آئیں انکی جھوٹی باتوں اور بے ،بنیاد جھوٹے وعدوں سے دھوکہ نہ کھائیں (جنہوں نے کہ گذشتہ طویل عرصے سے آج تک ملک کے 100فیصد قومی وسائل پر بالجبر اپنا ناجائز تسلط جما رکھا ہے) اور ان ایسے ہی آزمائے ہوئے بد دیانت  اور قومی وسائل کو لوٹنے والے کرپٹ عناصر سے  بار بار دھوکہ کھائیں نہ ہی اب مزید انہیں اپنا حقّ، حکمرانی سونپیں۔
اپنے عقل و شعور اور فہم فراست سے کام لیں اور اپنے عام لوگوں میں سے ایسے محبِّ وطن، صالح، سچے ہمدرد و خیرخواہ، مخلص، باصلاحیت، الله تعالٰی کا خوف دل میں جاگزیں رکھنے والے دیانتدار و ایمان دار لوگوں کو اپنا نمائندہ منتخب کر کے پارلیمنٹ میں بھیجیں تاکہ اصلاح کی کوئی امید بر آ سکے جس کی آس لگائے ہمارے آباء و اجداد قبروں میں جا سوئے ہیں۔ کم از کم ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ان کالے فرنگیوں سے بھی  اسی طرح نجات دلاتے جائیں جس طرح ہمارے آباء و اجداد نے گورے فرنگیوں  کی غلامی سے آزادی دلائی تھی اور اسلامی جمہوریہء پاکستان کا قیام ممکن اور حقیقت بنا کر دکھایا ہے۔
افسوس کہ ان کی بے انتہاء قربانیوں کے باوجود سازش کے تحت فرنگیوں کے ذھنی غلاموں نے اس آزادی کے ثمرات پاکستان کے عام شہریوں تک پہنچنے نہیں دیئے، گورے فرنگی کی غلامی سے نجات ملتے ہی اس کے وفادار، خدمت گذار اور نمک خوار کالے فرنگیوں نے اپنے مذموم عزائم پورے کرنے کی غرض و غایت سے اس نوزائیدہ مملکت کے قومی وسائل پر قابض ہو کر سازش کے تحت ہمیں اپنی رعایا بنا لیا اور شہری کی حیثیت جو ہمارے آئینی، قانونی، شرعی، انسانی، بنیادی، معاشی و معاشرتی جائز حقوق بنتے ہیں ان سے آج  تک ہمیں محروم کئے رکھا ہے اور ملک کے قومی وسائل کو یہ چند ہزار عناصر ہڑپ اور ہضم کر رہے ہیں۔ الله تعالٰی ہم پر رحم فرمائے اور ہمارے اندر بیداری کی لہر ابھارے! آمین۔ پاکستان زندہ باد! محروم و محکوم پاکستانی قوم  زندہ باد!


Thursday, 13 August 2015

محبِّ وطن پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کو، دل کی گہرائی سے، ملکی آزادی کی 68ویں سالگرہ کا دن بہت بہت مبارک ہو


تمام تر پیارے اور محبِّ وطن پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کو، دل کی گہرائی سے، ملکی آزادی کی 68ویں سالگرہ کا دن بہت بہت مبارک ہو۔
اس مسعود اور پر مسرّت موقع پر ، ہم وطنوں کے نام ایک درد مندانہ پیغام و عرضداشت۔
منجانب: پرویز اقبال آرائیں
تمام محبِّ وطن پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کو ملک کی آزادی کا جشن بہت بہت مبارک ہو! اللہ میرے ہموطنوں کو بھی حقیقی آزادی کی نعمت اور ثمرات عطا فرمائے۔ آمین!
یہ وطن ہمارا ہے کسی اور کا نہیں، بلا شبہ مجرمانہ ذہنیّت کے حامل عاقبت نا اندیش عناصر ہر پارٹی، گروہ، جماعت اور معاشرے کے مختلف طبقات میں ہو سکتے ہیں۔ ان کی ہر قسم کی منفی اور مجرمانہ سرگرمیوں کی نشان دہی اور ہر سطح پر حوصلہ شکنی و مذمّت  نیز اصلاح کی کوشش کرنا  ،  محبّ وطن شہری کی حیثیت سےمعاشرے کے ہر فرد ،بالخصوص علماءِ اسلام و مصلحین و مبلّغین کی انسانی، دینی و اسلامی ذمّہ داری بنتی ہے۔ ملزمان کے خلاف بلا تخصیص و امتیاز  بروقت مؤثر کاروائی کرتے ہوئے  اان کی مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کرنا،  عبرت ناک، قرار واقعی سزایئں دلوانا  اور ہر پاکستانی کے جان و مال اور عزّت و آبرو کو ایسے عناصر کی مجرمانہ کاورائیوں، شر انگیزیوں سے بہر صورت مکمّل تحفظ اور احساسِ تحفّظ فراہم کرنا حکومت، پارلیمنٹ اور اس کے ماتحت اداروں اورعدلیہ کی اوّلین زمّہ داری بنتی ہے جس کی کماحقّہ بجا آوری سے غفلت و لا پرواہی یا نا اہلی و ناکامی انہیں اپنے مناصب پر برقرار رہنے کے جواز سے محروم کرتی ہے اور ایسی حکومت اپنا حقِّ حکمرانی کھو بیٹھتی ہے،  اسے اپنے ملک کے شہریوں سے محصولات کی وصولی کا کوئی  انسانی، اسلامی، آئینی و قانونی حق باقی نہیں رہتا۔
جس طرح بعض نام نہاد مذہنی پیشواؤں نے اللہ تعالٰی اور رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ و اٰلہ و سلّم) کی نافرمانی کر کے مسلم امّۃ کو فرقہ فرقہ کر دیا، بعینہ ہمارے سیاسی رہنماؤں نے بھی پاکستانی قوم کو منتشر و متحارب گروہوں میں بانٹ کر رکھ دیا۔ اس طرح ایک طبقہ نے اللہ و رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ و اٰلہ و سلّم) کے ساتھ اپنا عہد توڑا اور ان کی نافرمانی کر کے امّۃِ مصطفوی میں تفرقہ ڈال دیا، اسےتقسیم در تقسیم کرکے تباہ و برباد کر دیاجبکہ دوسرے طبقہ نے، پاکستانی قوم کو مختلف و متعدد منتشر و متفرق لسانی و علاقائی گروہوں میں بانٹ کر، تحریک آزادی کے قائدین و مجاہدینِ اور شہداء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم کے ساتھ غدّاری کی، اور ان کی تمام تر بے مثل و بے دریغ قربانیوں کو رائیگاں کر دیا جن کے نتیجے میں، قائدِ اعظم محمّد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کی ولولہ انگیز اور مخلصانہ قیادت میں ایک (پاکستانی ) قوم بنی تھی۔ ایک عظیم امّۃ، امّۃِ مسلمہ جو کہ جسدِ واحد کی طرح امّۃِ واحدہ تھی، دوسری غیور و جفاکش قوم جو کہ متحد و منظم تھی، ان دونوں کو عاقبت نا اندیش، مفاد پرست و خود غرض عناصر نے انتہائی بے رحمی اور بے خوفی سے، تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔
افسوس صد افسوس کہ اب "مسلم امّۃ" کا کوئی وجود باقی ہے نہ "پاکستانی قوم" کا اور ہم ہیں اب بھی خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر آنکھیں کھولنے پر اب بھی آمادہ نہیں اور انہی عناصر کی اندھا دھند تقلید اور پیروی اب بھی مسلسل کرتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ کاش کہ اب بھی ہم ہوش و حواس، عقل و شعور اور فہم و فراست کی نعمت سے کام لے کر اصلاحِ احوال کی کوئی تدبیر کریں۔ کاش کہ  ہم  اب بھی سمجھ اور سنبھل جائیں اور  پاکستان کے کروڑوں شہری اپنے انسانی، اسلامی، آئینی و قانونی حقوق کا شعور حاصل کرلیں اور اپنے جائز ، انسانی، اسلامی، آئینی و قانونی حقوق  ، محکومی و محرومی سے نجات ، امن و انصاف، بہتر و معیاری تعلیمی و صحتِ عامّہ کی سہولیات سمیت  بنیادی انسانی ضروریات،   ترقّی و خوشحالی  کے حصول و تحفظ  کی غرض سے ، وسیع تر اور بہترین قومی و معاشرتی مفاد میں ،   متحد و منظم ہو جائیں، خود کو ان ظالم و بے رحم حکمرانوں کی رعایا اور عوام سمجھنے کے بجائے عوْام و خوّاص اور وی۔آئی۔پی، وی۔وی۔آئی۔پی کے کے چکر سے نکلیں، معاشرے میں معزّز و معتبر سمجھے سمجھائے جانیوالے معیار بدلیں،  فقط مال و سولے، اثر و رسوخ، طاقت اور زر و زمین کو ہی معتبری کا پیمانہ نہ بنائیں بلکہ کردار و اخلاق اور کاردگی و اخلاص کو بھی دیکھیں اور پرکھیں۔ اس ملک کو اپنا ملک سمجھیں  اور خود کو اس کے قومی وسائل میں مساوی طور پر جائز و آئینی طور پر حصّہ دار  اور حقدارسمجھیں، اس عظیم وطن عزیز کو  غاصب و ظالم، بے حس و بے رحم اور رہزن عناصرکی ذاتی جاگیر و نجی ملکیت نہ مانیں، ان ناقص و نااہل، خود غرض، مفاد پرست، جرائم پیشہ، عاقبت نا اندیش، لوٹ مار کرنے والے  رہزن قسم کے بے حس و بے رحم عناصر کی باتوں نہ آئیں (جنہوں نے کہ  ملک کے 100 فیصدقومی وسائل پر اپنا ناجائز تسلط جما رکھا ہے)  اور ان  ایسے ہی آزمائے ہوئے بد دیانت  اور قومی وسائل کو لوٹنے والے کرپٹ عناصرسے  بار بار دھوکہ کھائیں نہ ہی اب مزید انہیں اپنا حقّ،حکمرانی سونپیں۔
اپنے عقل و شعور اور فہم فراست سے کام لیں اور  ایسے محبِّ وطن، صالح، سچے ہمدرد و خیرخواہ، مخلص، باصلاحیت، اللہ تعالٰی کا خود رکھنے والے  دیانتدار و ایمان دار لوگوں کو اپنا نمائندہ منتخب کر کے پالیمنٹ میں بھیجیں تاکہ اصلاح کی کوئی امید بر آ سکے جس کی آس لگائے ہمارے آباء و اجداد قبروں میں جا سوئے۔ کم از کم ہم اپنی آئندہ نسلوں کو ان کالے فرنگیوں سے بھی  اسی طرح نجات دلاتے جائیں جس طرح ہمارے آباء و اجداد نے گورے فرنگیوں  کی غلامی سے آزادی دلائی تھی  اور اسلامی جمہوریہء پاکستان کا قیام ممکن اور حقیقت بنایا۔
افسوس کہ اس  آزادی کے ثمرات پاکستان کے عام شہریوں تک پہنچنے نہیں دیئے گئے، گورے فرنگی کی غلامی سے نجات ملتے ہی اس کے وفادار ، خدمت  گذار اور نمک خوار کالے فرنگیوں نے  اپنے مذموم عزائم پورے کرنے کی غرض و غایت سے اس نوزائیدہ مملکت کے قومی وسائل پر قابض ہو کر سازش کے تحت ہمیں اپنی رعایا بنا لیا اور شہری کی حیثیت جو ہمارے حقوق بنتے ہیں ان سے آج  تک ہمیں محروم کئے رکھا ہے اورملک کے  قومی وسائل کو یہ چند ہزار عناصر ہڑپ اور ہضم کر رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم حقیقی آزادی کو حاصل کر کے اس کے ثمرات و فوائد سے مستفید و مستفیض ہو سکیں۔آمین۔


واقعہء قصور کے ہم سب ہی قصوروار ہیں، اپنی بوئی ہوئی فصل تو خود کاٹنی ہی پڑے گی

واقعہء قصور کے ہم سب ہی قصوروار ہیں،  اپنی بوئی ہوئی فصل تو خود کاٹنی ہی پڑے گی!
(تحریر: پرویز اقبال آرائیں)
کرتا تھا تو کیوں رہا‘ اب کاہے پچھتائے
بووے پیڑ ببول کا‘ آم کہاں سے آئے
اردو ترجمہ: مندے کام نہ چھوڑے تونے اب کاہے پچھتائے
کیکر کے جب پیڑ لگائے آم کہاں سے کھائے
پنجابی: مندے کموں باز نہ آیا‘ ہن ایویں پچھتائے
کیکر دے جد بوٹے لائے‘ امب کتھوں ہن کھاویں
مترجم کو یہاں بابا فرید کا ایک اشلوک یاد آ گیا۔ اس کا اردو ترجمہ یوں کیا    ؎
پیڑ لگائے کیکر کا اور آس انگور کی باندھے
خود ہی کات کے اون کی ڈھیری پگلا ریشم ڈھونڈے
قصور کے واقعے پر دل دہلا دینے والی اس چشم کشا رپورٹ کو پڑھ کر  یہ بندہء ناچیز دنگ رہ گیا، حقائق کو جان کر تو جیسے  سکتہ ہی طاری ہو گیا،  دل خون کے آنسو رونے لگا،  رونگٹے کھڑے ہو گئے، شرم  سےسر جھک گیا،  ڈوب مر نے کی تمنّا دل میں مچلنے لگی، ملک و معاشرے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ سے بھی گھن سی  آنے لگی،  ایسا لگا کہ جیسے ہم سب  پاکستانی بھی  اس انسانیت سوز واقعے اور اس جیسے نہ جانے کتنے ہی دیگر  اندوہ ناک واقعات کے ذمہ دار  ہوں، رحمٰن کے نہیں شیطان کے بندے، اسی کے پجاری و پیروکار بن کر  دینی احکامات و تعلیمات، انسانی   اخلاقیات اقدار کو فراموش کر کے بالکل بے حس، بے حیاء و بے غیرت  اور وحشی درندےبن چکے ہوں،  اسلامی جمہوریہء پاکستان کا مسلم معاشرہ جیسے پستی، تباہی و بربادی کی  اس آخری  اور حد وں  کو چھو رہا ہوکہ  اس وقت کرّہءارض پر ایسی کسی نظیر کی تو بات ہی کیا،قبل از اسلام کے دورِ جاہلیت میں بھی اس کوئی مثال ڈھونڈنا مشکل ہو۔۔۔۔ ورنہ ایسا کیونکر ممکن ہو سکتا تھا جو فی زمانہ اس مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہء پاکستان کے مسلم معاشرے میں ہو رہا ہے اور جس کی کہ ایک ہلکی سی جھلک واقعہء قصور میں نظر آتی ہے ؟؟؟
ظلم و بربریت کا ایسا بہیمانہ ، بے رحمانہ و وحشیانہ گندہ ترین مکروہ  و غلیظ ترین کھیل اس پاک دھرتی پر  کھل کر کھیلا جا رہا رہا ،  معاشرے میں ہر طرف بے چینی ہے، نا انصافیوں حق تلفیوں، لوٹ مار، ناجائز منافع خوری، رشوت ستانی کا  بازار گرم ہے۔ جان بچانے والی ادویات اور غذائی اجناس تک ہر چیز میں ملاوٹ، ناقص ناپ تول ، عدل و انصاف اور امن و احساسِ تحفظ ناپید، کمزور بیچارہ بے یارومددگار اور طاقتور کے  ظلم کا شکار ہے۔  کہیں سے انصاف کی امید نہ ہونے کے سبب سے واقعہء قصور کے سینکڑوں اور ان جیسے اور نہ جانے کتنے مظلوم و بے کس ہر وحشیانہ بربریت کا شکار ہو کر بھی چپ رہنے پر مجبورہے۔۔۔۔۔۔۔۔
معاشرتی بگاڑ کے مختلف پہلوؤں،  اصل محرکات و اسباب اور ان کے در پردہ عوامل پر تحقیق، گہرے غور و خوض، پھر ان کے تدارک، سدّباب ،  ازالے اور تلافی کے بغیر معاشرتی اصلاح کا خواب شرمندہء تعبیر نہیں ہو سکتا، معاشرے کے ہر طبقے اور حکومت کو کامل اخلاصِ قلبی اورصدقِ نیت کے ساتھ پوری فرض شناسی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا کیوں کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، انتہائی مایوس کن اور دردناک صورتِ حال ہے،ہمہ جہت کوششوں کی ضرورت ہے۔ کسی بھی طبقے نے اپنی ذمّہ داریوں کو کما حقہ نہیں نبھایا، سب ہی نے لا پرواہی اور کوتاہی سے کام لیا ہے بلکہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے، تمام اچھے اقدار اور اخلاقیات کو اپنی اپنی مطلب پرستی،مفاد پرستی، مخصوص ناجائز مفادات، ذاتی اغراض و مقاصد اور مذموم عزائم کی بھینٹ چڑھا دیا ھے۔ جس کا جتنا بس چلا ہے اس نے کوئی رعایت نہیں برتی۔ اب تو ایک منظم، مؤثر، مربوط اور فعّال تحریک کے نتیجے میں ہی اصلاح کا کوئی پہلو نکل سکتا ہے جس میں علماء و امراء ، الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا، اساتذہء کرام سمیت معاشرے کے ہر ایک طبقے او ادارے کو اپنا اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنے پر آمادہ کیا جانا بھی ضروری ہے۔ سب سے اہم کردار بہرحال ریاست اور اس کے ماتحت اداروں  اور علماء کرام کو ہی ادا کرنا ہے۔ وسیع تر اور بہترین قومی و ملّی مفاد میں مؤثر اقدامات کا اب بھی وقت ہے۔ کاش کہ ہم اب بھی سنبھل جائیں اور صالح مسلمان اور اپنی ریاست اسلامی جمہوریہء پاکستان کے ذمّہ دار اور بہتر شہری بن سکیں۔ عوام کو حقیقی معنٰی میں آزادی کی نعمت میسّر آسکے جو کہ ان کا بنیادی انسانی حق ہے یعنی معاشی، معاشرتی انصاف و مساوات انسانی و اخوّۃِ اسلامی، امن و عدل، حصولِ تعلیم اور علاج و معالجے کے یکساں و مساوی مواقع،احساسِ تحفّظ، وغیرہم جو کہ اللہ کے قانون کے نفاذ کے بغیر ناممکن نہیں تو بھی مشکل ضرور ہے۔ اسوقت جو حالات درپیش ہیں ان کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں تو صورتِ حال کی عکاسی کچھ یوں ہوتی ہےکہ۔۔۔
عاقبت نا اندیش فرقہ پرست علماء سوء  اور نام نہاد مذہبی پیشواء ، قرآن اور رسول صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلّم  کی سنّۃ (مشہور متواتر، صحیح اور متفق علیہ احادیث مبارکہ) اور اسوۃ الحسنہ کو پسِ پشت ڈال کر اپنے اپنے فرقہ کے خود ساختہ انسانی افکار و نظریات ، احکامات و تعلیمات کے فروغ اور انہی کے پرچار کو اپنی اوّلین ترجیح بنا کر اخوّۃِ اسلامی کے بجائے مذہبی منافرت،  معاشرتی انتشار و افتراق، مذہبی تعصبات، فرقہ پرستانہ فسادات، اپنے فرقے کے  نظریات و تصوّرات کےغلبے کی جدّ وجہد کے لئے مذہبی دہشت گردی کی تعلیم و تربیت میں مست رہے، مسلم  امراء نے ہر جائز و ناجائز طریقے سے اپنے اپنے مال و اسباب میں اضافہ کرنے کی جدّوجہد کو ہی  اپنا مقصدِ حیات  جانا، حکمرانوں نے حرام و حلال کی پرواہ کئے بغیر مال بنانے، قومی خزانے کو مالِ غنیمت سمجھ کر لوٹ مار مچانے کو ہی قومی خدمت جانا اور اپنے اپنے فرائض منصبی سے مجرمانہ غفلت کے مرتکب، مفاد پرست، خود غرض، عاقبت نا اندیش لٹیروں اور رہزن عناصر  کو کو اپنا  اپنا رہبر و راہنماء اور بڑے لوگ مانا انہی کی  باتوں، تعلیمات اور اقتداء کو  ہم سن نے بھی صحیح اور درست جانا، اسی روش کے لازمی و منطقی نتیجے میں تو آخر کار ایسے ہی وقت کو ہم پر ضرورہی آنا تھا ، چاہئے کہ کم از کم اب تو ہم ہوش  کے ساتھ میدانِ عمل میں آئیں،  اپنے اپنے حقوق ق فرائض اور ذمّہ داریوں کو صحیح طور پر نبھائیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کاپورا پورا خیا ل رکھیں اور اس میں توازن قائم کریں، عادی جرائم پیشہ عناصر  اور  انکی پشت پناہی ،  پرپرستی، حوصلہ افزائی کرنے والے  ان  کے آقاؤں کو جو کہ ملک و معاشرے کے اصل مجرم ہیں  ان سب کو مار بھگائیں ۔ فرقوں ، جماعتوں، مسلکوں کی وفاداریوں پر رسول اللہ  صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلّم   کی اطاعت و اتباع کو اپنی ترجیح بنائیں۔ قرآن اور رسول صلّی اللہ علیہ و اٰلہ وسلّم  کی سنّۃ (مشہور متواتر، صحیح اور متفق علیہ احادیث مبارکہ) اور اسوۃ الحسنہ کی پیروی میں ایک امّۃ بن جائیں، وظنِ عزیز میں عدل و انصاف ، ترقی و خوشحالی،  ان و استحکام، مساوات اور اخوّۃِ اسلامی کو بہرحال یقینی بنائیں، طاقت وروں کے ظلم و ستم سے مظلوموں کی جان چھڑائیں، نا انصافیوں اور حق تلفیوں کے آگے ڈھال بن جائیں، امدادِ باہمی اور بقائے باہمی کا اصول اپنائیں ، امن و محبّت  کوواپس لائیں۔ آئین کی بادستی اور قانون کی عملداری ، مساوی سلوک اور عدل و انصاف ، معاشی و معاشرتی، امن و سلامتی، احساسِ تحفّظ  اور اپنےآئینی و قانونی حقوق کے حصول و تحفّظ کو بہ ہر صورت یقینی بنائیں ۔ آپس میں متحد ہر کر بحیثیت پاکستانی ایک قوم اور بحیثیت مسلمان ایک امّۃ بن جائیں، اتحاد و اخوّۃ کےکی طاقت  کی طاقت و قوّۃ کے ذریعے ہر ظلم و زیادتی، نا انصافی اور حق تلفی سے چھٹکارا پائیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سدھر جائیں  ورنہ اپنی اپنی باری آنے کا انتظار فرمائیں، جو کچھ ظلم و ستم  آج دوسروں کے ساتھ ہوا  ہے (للہ نہ کرے )کل کو  ہمارے ساتھ بھی ہو سکتا ہے ۔

 واقعہء قصور کے ہم سب ہی قصوروار ہیں،  اپنی بوئی ہوئی فصل تو خود ہی کاٹنی پڑے گی، ہم میں سے کوئی بھی بری الذِّمہ نہیں، کیونکہ اصل مجرموں، ان کےسرپرست بااثر حکومتی ، سرکاری یا   دیگر عناصر ، مجرمانہ غفلت کے مرتکب پولیس و سول حکام کے ساتھ پورا معاشرہ  بھی اس واقعہ قصور کا قصور وار ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی اصلاح کی فکر لیں ورنہ ایسے مظالم برھتے  ہی جائیں گے۔ ان کی روک تھام ہمیں سب کو مل جل کر ہی کرنی ہو گی۔ آؤ آؤ اب بھی وقت ہے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر شاید ہاتھ نہیں آئے گا۔