Wednesday, 18 November 2015

طلبِ جہیزایک سنگین گناہ و جرم، بدترین لعنت اور معاشرتی ناسور

"طلبِ جہیز و فراہمیء جہیز اور بارات سنگین گناہ و جرائم، بدترین رسوم و لعنتیں اور معاشرتی ناسور ہیں"

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر پرویز اقبال آرائیں، بانی صدر، تحریک نفاذ آئین، قرآن و سنت پاکستان

جہیز کی طمع و طلب اور خواہش و تقاضہ نیز قبولیت بنیادی طور پر خلافِ اسلام، غیر شرعی، غیر اسلامی، غیر انسانی و غیر اخلاقی، بدترین معاشرتی رسوم ہیں جو کہ مسلمانوں میں ہندو معاشرے کے ساتھ طویل رہن سہن اور احساس کمتری، قرآن و سنت سے انحراف و روگردانی اور سرکشی و نافرمانی کے عمومی روش و رویے اور رجحان کی وجہ سے در آئی آئی ہیں حالانکہ خود ان کے ہاں بھی ان رسوم کو معیوب و قابل نفرت و حقارت گردانا جاتا ہے اور ان کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے مگر افسوس صد افسوس کہ بد قسمتی سے ہمارے یہاں (پاکستان کے مسلم معاشرے میں) بد ترین لعنت اور معاشرتی ناسور بن کر یہ رسوم ہمارے رگ و پے میں بری طرح سرایت کر چُکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں کہ سسرالیوں نے اپنی بہو کو، شوہر نے اپنی دلہن کو جہیز کم لانے کے الزام میں اس پر مٹی کا تیل، پیٹرول، تیزاب چھڑک کر آگ لگا دی، نئی نویلی دلہن کو جلا کر جان سے مار ڈالا گیا،  مار پیٹ کر ذلیل کیا اور گھر سے نکال دیا، پنکھے سے لٹکا کر  پھانسی دے ڈالی، تیز دھار آلے/ چھریوں کے وار کر کے بےدردی و بےرحمانہ طریقے سے قتل کر دیا، چولھا، سٹوو پھٹنے سے ہلاک ہونے، خود کشی کرنے کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی وغیرہ! معصوم مقتولہ کے ساتھ یہ ظالمانہ و بہیمانہ، بربریت و سفاکیت پر مبنی بدسلوکی اور ظالمانہ و بےرحمانہ رویہ محض کم جہیز لے کر آنے کی پاداش میں اختیار کیا جاتا ہے، حالانکہ دین اسلام میں لڑکی کے والدین اور بھائیوں پر بارات کےلیے رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے وغیرہ کی ذمہ داری ہر گز نہیں ہے قرآن و سنت میں بارات و جہیز کا قطعاً کوئی تصور، گنجائش، جواز موجود و ثابت نہیں، آثار صحابہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین، آئمہ محدثین و آئمہ فقہاء (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل) رحمہم اللہ تعالٰی اور ان کے شاگردوں اور علماء ربانیین صالحین و مفتیان اسلام رحمہم اللہ کے اقوال، تصانیف و تالیفات ہ کے اقوال و ارشادات اور مواعظ سے بھی کہیں بارات و جہیز کے جواز کا کوئی ثبوت میسر نہیں آتا جہیز بہر صورت حرام و ناجائز، لعنت و ناسور اور گناہ کبیرا ہے، اس حقیقت سے بھی کوئی اہل علم انکار کی جرأت نہیں کر سکتا کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمہ رضی الله تعالٰی عنہا سمیت کسی بھی بیٹی کو کوئی بھی اور معمولی سی چیز بھی جہیز میں نہیں دی۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا ابوطالب نے دادا حضرت عبدالمطلب کے بعد حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی پرورش و کفالت کی تھی اور پھر چچا ابوطالب کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پرورش و کفالت کی ذمہ داری، رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے سنبھالی تھی اور سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم، نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم کے ہی پاس ان ہی کے گھر میں رہتے تھے تو اس لیے جب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی پیاری لخت جگر سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ساتھ سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کا نکاح فرمایا تو انکے والد گرامی ابوطالب کی وراثت کے طور پر ایسی چند اشیاء ضروریہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو عطا فرمائیں جو ان کے والد کی طرف سے ترکے میں حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کے حصے میں آئی تھی  اور جن  کے بغیر علیحدہ مکان یا حجرے میں کسی جوڑے کا رہنا ممکن نہیں تھا اور وہ چیزیں حضرت علی رضی الله تعالٰی عنہ کے والد گرامی ابوطالب کی وراثت میں ان کا حصہ تھیں جو رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے بوقت ضرورت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے حوالے کر دی تھیں، نبی علیہ الصلوة والسلام نے حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا سمیت کسی بھی بیٹی کو ہرگز اور قطعاً کوئی جہیز نہیں دیا، سنت رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم، قرآن مجید اور ذخیرہء کتب حدیث سے جہیز کا کوئی جواز ثابت نہیں ہے اور نہ ہی آئمہ اربعہ، آئمہ فقہاء و مجتہدین یا علماء و صالحین کی تصانیف و تالیفات اور فتاویٰ سے جہیز کے جواز و ثبوت اور سنت نبوی ثابت ہوتا ہے، یہ محض ایک ایسی بے بنیاد، من گھڑت اور فضول و لغو بات اور صریح غلط فہمی ہے جس کو بلا تحقیق و تصدیق، جاہل مولویوں، علماء سوء اور نام نہاد و جعلی پیروں نے شر و فساد اور بدترین بدعت کے طور پر مسلم معاشرے میں پھیلایا ہوا ہے اور اس پر مصلحتاً خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور نناوے فیصد عام و خاص لوگ "جہیز دینے کے حرام و ناجائز اور گناہ کبیرہ عمل کو سنت سمجھنے لگ گئے ہیں بعض علماء سوء، قرآن و سنت کے احکامات سے لاعلم مولوی حضرات بتاتے ہیں کہ "جہیز سنت تو ضرور ہے مگر شرط یہ ہے کہ اسی کے بقدر ہو جو رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت فاطمۃ الزہرا رضی الله تعالٰی عنہا کو دیا تھا" جبکہ یہ بات سرے سے ہی بے بنیاد، جھوٹی، لغو، فضول، من گھڑت ہے، جہیز طلب کرنا، جہیز طلب کیے بغیر یا تقاضے پر دینا، سو فیصدی اور بالکل ہی حرام و ناجائز، گناہ کبیرا ہے، یہ صرف ایک ہندووانہ رسم ہے، ایک بدترین لعنت و ناسور ہے۔ نکاح پر لڑکے پر واجب ہے کہ وہ حسب استطاعت مناسب حق مہر کے بعوض لڑکی سے نکاح کرے جبکہ لڑکی مقررہ حق مہر واجب کے بعوض لڑکے سے نکاح کو قبول کرے تو یہ درست و جائز اور شرعی عمل ہے، کوئی بھی والدین، رشتے دار، بھائی بہن لڑکی کو حسب استطاعت تحائف میں سوئی سے لے کر ہوائی جہاز تک ہر چیز یا نقد رقومات وقتاً فوقتاً بطور عطیہ و تحفہ دیں تو بالکل جائز و درست اور باعث اجر و ثواب ہے بس شرط یہ ہے کہ بغیر نمود و نمائش اور اعزہ و اقربا سمیت اڑوس پڑوس اور تعلق والوں یعنی تمام افراد معاشرہ و خاندان، قبیلے و برادری اور اہلیان علاقہ کو بتائے، دکھائے، نمود و نمائش کیے بغیر، خاموشی کے ساتھ کسی بھی موقع پر، کسی بھی وقت شادی کے کچھ عرصہ بعد اس طرح دیا جائے کہ دینے اور لینے والے کے سوا کسی بھی غیر کو اس کا علم نہ ہونے پائے۔ ہمیں چاہیے کہ ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے جہاں جہیز طلب کرنے، جہیز کا تقاضہ و مطالبہ کرنے، جہیز لینے اور قبول کرنے کو جہاں جائز اور فیشن بنا رکھا ہے وہیں لڑکیوں کو وراثت میں ان کا شرعی حصے سے محروم رکھنے اور لڑکیوں کو ان کے نکاح پر سود پر قرض لے کر، زمین، جائیداد، گھر بار رہن رکھ کر بھاری سود پر قرض لے کر بھی اپنی ناک اونچی رکھنے کےلیے نود و نمائش کے ساتھ اعلانیہ و فخریہ طور پر جہیز دینے کو ناگزیر ضرورت، جائز بلکہ سنت سمجھا جاتا ہے، اور پھر لڑکیوں کو والدین کی وراثت میں شرعی حصے سے محروم رکھنے میں بھی کوئی عار و عیب نہیں سمجھا جاتا۔ اس مطلق حرام و ناجائز رسم کے مکمل خاتمے کےلیے جہد مسلسل کا آغاز کریں،۔ کیونکہ جہیز کا دینا، لینا، طلب و خواہش یا تقاضہ و طمع رکھنا، ہر صورت میں حرام و ناجائز، لعنت و ناسور اور گناہ کبیرا ہے،
اسلامی و شرعی نکاح میں صرف چھ چیزوں کی ضرورت ہے، پہلی چیز کم از کم دو قابل قبول و معتبر اشخاص گواہان کی موجودگی ، دوسری چیز ان گواہان کے سامنے لڑکے اور لڑکی کا ایک دوسرے کو ایجاب و قبول، یہ دونوں چیزیں فرض ہیں، تیسری چیز حق مہر ہے جو کہ کم از کم دس درہم کے مساوی اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں، یہ واجب ہے، چوتھی چیز نکاح کے بعد خطبہ ء نکاح، پانچویں چیز نکاح موقع پر موجود افراد کا گڑ، شکر، بتاشوں، چھوہاروں، کھجوروں، مٹھائی یا کسی بھی شیرینی وغیرہ سے منہ میٹھا کروانا اور چھٹی چیز ہمبستری کے ایک دو یا زائد روز بعد حسب استطاعت چند یا بعض اعزہ و اقرباء، دوست احباب اور پڑوسیوں کو  سادہ و مناسب دعوت ولیمہ کی ضیافت کا اہتمام کرنا ان چھ چیزوں مجموعے کو نکاح، شادی، بیاہ، میرج، ویڈنگ کہتے ہیں، اس کے علاوہ باقی ساری چیزیں شرعاً غلط، ناجائز، حرام اور ممنوع ہیں، خرافات و فضولیات اور لغو و بیہودہ رسومات ہیں جن سے گریز و اجتناب اور پرہیز ضروری ہے۔
انہی کی وجہ سے شادی کی برکات اور سعادتیں، ختم ہو جاتی ہیں، نو بیاہتا جوڑے اور دونوں خاندانوں میں خلوص و محبت اور چاہت کا قلع قمع ہو جاتا ہے، رنجشیں اور شکوے شکایتیں جنم لینے لگتے ہیں اور اکثر و بیشتر، مایوں، مہندی اور نکاح پر ناچ گانے، جہیز کی نمود و نمائش، مخلوط محافل موسیقی، شہنائیوں، ڈھول باجوں، بموں، پٹاخوں، پھلجھڑیوں، فائرنگ جیسی خرافات کے ساتھ بارات،  سمیت قرآن و سنت کے دیگر بھی کئی احکامات سے کھلا انحراف و روگردانی، بغاوت و سرکشی اور نافرمانی کرنے کے بعد نکاح کی اس تاثیر، خیر و برکت اور سعادت کی امید کیوں کر کی جا سکتی ہے جس کی تقریبات میں احکام شریعت اسلامیہ کا ذرا بھی خیال نہ رکھا گیا ہو۔
 پھر بہو جلانے کا حق تمہیں پہنچتا ہے! --- پہلے اپنے آنگن میں بیٹیاں جلا دینا!
اسلام  (قرآن و سُنَّۃ) کے احکامات و پیغامات اور تعلیمات و ہدایات میں   کہیں بھی جہیز کو پسندیدہ سمجھا گیا ہے اور نہ ہی اس کو جائز  سمجھا گیا ہے بلکہ   طلب و تقاضہءِ جہیز کی رائج الوقت رسم  کو، اِسلامی احکامات و تعلیمات کے صریحًا خلاف  اور اُن سے انحراف کے مصداق ، حرام  عمل  ہے قبل از اسلام، دورِ جاہلیت   کے عرب  معاشرے میں میں اس کا  کوئی رواج نہ تھا۔  گویا کہ یہ دور جاہلیت  میں رائج برائیوں سے بھی بد ترین بُرائی ہے جسے اُس دور کے انسانوں نے بھی کبھی گوارا نیا نہ ہی روا رکھا۔
جب بَرِّعظیم (ہندوستان) میں، مسلمانوں کا سابقہ اس جاہلانہ  رسم سے پڑا تو اس کے معاشرتی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے علماء نے اس کے جواز یا عدم جواز کی بات کی۔ہمارے ہاں جہیز کا جو تصور موجود ہے، وہ واقعتاً ایک معاشرتی لعنت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سی لڑکیوں اور ان کے اہل خانہ پر ظلم ہوتا ہے۔اگر کوئی باپ، شادی کے موقع پر اپنی بیٹی کو کچھ دینا چاہے، تو یہ اس کی مرضی ہے اور یہ امر جائز ہے۔ تاہم لڑکے والوں کو مطالبے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو جہیز دیا گیا، وہ اس وجہ سے تھا کہ سیدنا علی نبی کریم ﷺ کے زیر پرورش تھے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ آپ نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو کچھ سامان دیا تھا کیونکہ یہ دونوں ہی آپ کے زیر کفالت تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے دیگر دامادوں سیدنا ابو العاص اور عثمان رضی اللہ عنہما کے ساتھ شادیاں کرتے وقت اپنی بیٹیوں کو جہیز نہیں دیا تھا۔جہیز سے ہرگز وراثت کا حق ختم نہیں ہوتا ہے۔ وراثت کا قانون اللہ تعالی نے دیا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر شدید وعید سنائی ہے۔ جہیز اگر لڑکی کا والد اپنی مرضی سے دے تو اس کی حیثیت اس تحفے کی سی ہے جو باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔لیکن اس میں اسراف و نمود اور اعلان و نمائش سے بہرطور گریز کرنا چاہیے۔
ناجائز کام میں معاونت بھی ناجائز و گناہ ہے۔ کسی اسلامی و دینی فریضے کی غیر اسلامی  اور حرام و ناجائز طریقے سے بجا آوری کیا معنٰی رکھتی ہے؟ اسلام مخالف ناجائز و حرام رسوم و رواج اور طور و طریقے کے تحت کوئی اسلامی فرض کس طرح انجام پا سکتا ہے؟ دلہے کو ڈھول کی تھاپ اور شہنائیوں کی گونج میں مسجد لیجا کر سلام کروانے کی رسم، غیر محرم جوان لڑکے اور لڑکیوں کا مخلوط محفل میں رقص اور مجرا ، جہیز کا لین دین، لڑکی والوں سے باراتیوں اور دلہا والوں  کی پر تکلف ضیافت اور رشتے داروں کو تحائف کا مطالبہ وغیرہ کیا دین اسلام سے کھلی بغاوت نہیں؟ اگر ایسا کرنا صحیح ہے تو پھر بغیر وضو اور بغیر لباس صلٰوۃ ادا کرنا اور ہر رکعت میں ایک یا تین سجدے کرنا اور ہر رکعت میں ایک فون کال سن لینا یا خود کال کر لینا اور پوری صلٰوۃ ادا کر کے آخر میں فقط ایک ہی بار سلام پھیرنا یا ہر رکعت میں سلام پھیرنا یا ظہر کی تین، عصر کی پانچ، رکعتیں پڑھ کر صلٰوۃ قائم کرنا بھی جائز ہی ہو گا اور  اگر نہیں تو باقی اسلامی فرائض اور احکامات کی تعمیل من مانے غیر اسلامی طریقوں سے کس طرح جائز ہو سکتی ہے؟؟؟ جہیز کا لینا اور دینا صریحاً ناجائز اور حرام ہے،  شادی بیاہ کا مروجّہ طریقہ اور رسومات و رواج مشرکانہ و ہندوانہ، ناجائز و حرام ہیں ، ان کے تحت انجام پانے والی شادی اور عقود نکاح کی شرعی حیثیث متنازع و مشکوک ہے اس میں خیر و برکت تو بعد کی باتیں ہیں پہلے تو اس کا انعقاد ہی مشکوک و متنازع ہے۔  اس طرح کی شادیاں   اسلام کی بنیادی تعلیمات و ہدایات اور احکامات کی مخالفت کر کے اور ان کا  مذاق اُڑانے کے مصداق و مماثل عمل اور معاشرتی لعنت و ناسور ہے۔جہیز سمیت شادی بیاہ کی تمام تر اسلام مخالف مشرکانہ و ہندوانہ رسومات و روائج کا خاتمہ فرض ہے۔ کوئی مالدار باپ اپنی بیٹی کو تحفے میں کچھ دینا چاہے تو دلہا والوں کی خواہش و تقاضے کے بغیر اپنی خوشی سے شادی کے بعد اپنی بیٹی کو غیر اعلانیہ طور پر چپکے سے دے  آئے تو جائز ہے ورنہ نہیں ۔اللہ کا واسطہ دین کو نہیں بلکہ خود کو بدلو!